FREE SHIPPING | On order over Rs. 1500 within Pakistan

پاکستان کی لوک داستانیں

In Stock Unavailable

sold in last hours

Regular price Rs.800.00 Rs.1,250.00 |  Save Rs.-450.00 (-57% off)

-135

Spent Rs. more for free shipping

You have got FREE SHIPPING

ESTIMATED DELIVERY BETWEEN and .

PEOPLE LOOKING FOR THIS PRODUCT

PRODUCT DETAILS

پاکستان کی لوک داستانیں | | پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
.
داستانوں کی فہرست
پنجاب __________
ہیررانجھا
سوہنی مہینوال
مرزاصاحباں
پورن بھگت
دُلّابھٹی
سَمّی
خیبر پختونخواہ __________
موسیٰ خاں گل مکئی
آدم در خانئی
محبوبۂ جلات
یوسف کڑہ مار
شہہ توردِ لئی
زرسانگہ
میمونہ اور شیرعالم
سندھ __________
سسّی پنوں
میندھرامومل
مومل رانو
عمرماروی
لیلاں چینسر
نوری جام تماچی
مورڑومیربحر
بھٹائی گھوٹ
بلوچستان __________
حانی شہ مرید
شیریں اور دوستین
شہداد اور ماہناز
سمّو اور مست توکلی
بیگم…رئیس دربیش
عزت… مُہرک
للّہ گراناز
لوک دانش
تاریخ کو قوموں کی زندگی میں وہی مقام حاصل ہے جو انسان کے لیے یادداشت کا ہے۔ یادداشت کھو جانے سے کسی انسان کے لیے سارے رشتے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کا اپنا وجود تک اس کے لیے اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔ کسی قوم کے لیے تاریخ کا محفوظ نہ ہونا بھی ایسی ہی کیفیت پیدا کرتا ہے اور بہ حیثیت مجموعی وہ قوم اپنے آپ کو بھی پہچان نہیں پاتی۔
تاریخ دو صورتوں میں ہمارے سامنے موجود ہوتی ہے۔ ایک وہ شکل جس سے ہم، آپ، سب آگاہ ہیں لیکن ٹھہریے یہ تو صرف بادشاہوں، حکمرانوں، جرنیلوں کے قصے ہیں۔ ان کی خوں ریزیاں علاقوں اور ملکوں کی چھینا جھپٹی اور زیادہ سے زیادہ قوت و جبروت اور مال و منال کے حصول کی ہوس ہے۔
کیا صرف اسے تاریخ کہا جا سکتا ہے؟ کہ ہنی بال نے کتنے علاقے روندے، سکندر کہاں تک در آیا، اشوک اعظم نے کہاں تک لاشیں بچھائیں، چنگیزخان اور ہلاکوخان نے کتنے کلہ مینار(کھوپڑیوں کے ڈھیر) تعمیر کیے؟
یہ یادداشت تو صرف بادشاہوں کے لیے ہو سکتی ہے، ہم، آپ، سب عوام کہاں ہیں…؟
سنتوکھ سنگھ دھیر لکھتے ہیں:
’’لوک کہانیوں میں بھی لوک گیتوں کی طرح تاریخ کی جھلک ہوتی ہے بلکہ کہانیوں میں تو تاریخ زیادہ نکھر کے سامنے آتی ہے۔ صرف تاریخ ہی نہیں بلکہ سماج کے بارے میں بھی لوک کہانیاں اشارات سے بھری پڑی ہیں۔‘‘
یہاں ہمیں تاریخ کا دوسرا رُخ دیکھنا پڑتا ہے اور وہ ہے فوک ہسٹری (Folk History) یعنی لوک تاریخ، یہ تاریخ ہماری سماجی یادداشت میں محفوظ ہے۔ لوری، لوک گیت، لوک رقص اور ان سب سے بڑھ کر اس وادیٔ سندھ (پاکستان) کی لوک داستانیں اور کہانیاں اس تاریخ کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
شفیع عقیل لکھتے ہیں:
’’قصے کہانیاں کہنا اور سننا ابتدا ہی سے انسانی طبیعت کا خاصہ رہا ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے جب وہ گھنے جنگلوں، اندھیرے غاروں اور پہاڑوں کی کھوہوں میں رہتا تھا، اس وقت بھی ان کا اسی طرح دلدادہ رہا ہو گا جیسے موجودہ ترقی یافتہ دَور میں نظر آتا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس دَور میں وہ ان داستانوں کو اس طرح بیان نہ کر سکتا ہو، ان میں اس طرح کے موڑ نہ آتے ہوں کہانیوں میں یہ پھیلائو نہ ہوتا ہو مگر یہ باور کر لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ انسان کا داستان گوئی سے اس وقت سے تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ جب اس نے پہلے پہل ایک دوسرے سے بات چیت شروع کی تھی۔ وہ زبان چاہے الفاظ کی قیود سے آزاد رہی ہو اور خواہ وہ صرف اشاروں اور کنائیوں پر مشتمل ہو لیکن ایک دوسرے کو اپنے کارنامے سنانا اور قصے کہانیاں کہنا ابتدا ہی سے انسان کے ساتھ ساتھ چلا آ رہا ہے۔ جب ایک قبیلہ کسی دوسرے قبیلے پر حملہ آور ہوتا ہو گا یقینا رزمیہ داستانوں نے اسی وقت جنم لیا ہو گا۔‘‘
اور ڈاکٹرگیان چند کہتے ہیں:
’’قصہ گوئی کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی نطق۔‘‘
پاکستان کی لوک داستانیں پڑھتے ہوئے میرا بچپن ’’سیربین‘‘ کی تصویری جھلکیوں کی طرح تصور کی آنکھوں میں پھر گیا۔ جب ننھیال کے گائوں سے دور ڈیرے پر رکنے کی ضد صرف اس لیے کی جاتی تھی کہ رات کو’’باباجی‘‘ (میرے نانا ’’محمددین‘‘ جنہیں ہم ’’باباجی‘‘ کہتے ہیں 1992 ء میں وفات پا گئے) سے کہانی سننے کا شوق پورا کیا جائے۔ (باقی لوگوں کی یادیں …ہو سکتا ہے اپنی دادی یا نانی سے وابستہ ہوں) پھر سردیوں کی ان طویل راتوں میں ناناجان کے حقے کی گڑگڑاہٹ اور مخصوص تمباکو والے دھوئیں کی بُو آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ رات جب وہ ’’موہنا طوطا اور ڈھول بادشاہ‘‘ کی کہانی سناتے تو بہت سارے تاریخی حوالے بھی اس میں چھپے ہوتے۔ (میری مراد بادشاہوں کی تاریخ سے ہے۔)
پروفیسر بنجارا بیدی کہتے ہیں:
’’ان کہانیوں میں اپنے وقت کے بھائی چارے اور سماج کی بھی پوری پوری جھلک ملتی ہے اور ان لوک کہانیوں میں ہماری رستی بستی دُنیا کو بھی پیش کیا گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ فرماتے ہیں:
’’یہ کہانیاں زندگی سے انتہائی قریب ہیں۔ زندگی کی بنیادی اہمیتوں اور رہن سہن کو اجاگر کرنے والی ہیں اور ان میں عقل و دانش کا درس الفاظ اور باتوں میں نہیں بلکہ عمل سے بیان کیا گیا ہے۔‘‘
جب بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ تمرلنگ(تیمورلنگ) کون تھا اور دریائے جیحوں کے اس پار (ماوراء النہر) کی دُنیا کیا تھی۔ ان داستانوں میں جانور اور پرندے بھی باتیں کرتے اور انسانوں جیسے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے تھے۔
پوری دنیا میں سماجی تاریخ کی اصل لوک ادب سے ملتی ہے اور واقعات جو سماج کی سوچ، رہتل اور عمرانی معاملات کا اظہار یہ ہوتے ہیں ہمیں ان لوک داستانوں میں ہی نظر آتے ہیں۔ وادیٔ سندھ (پاکستان) کی تہذیب کی رنگارنگی ہمیں ان داستانوں میں نظر آتی ہے۔
محترم پروفیسرحمیداللہ شاہ ہاشمی صاحب کی یہ کاوش ایک خاص رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کتاب میں جو داستانیں یکجا کی گئی ہیں ان میں عشق مجاز کا رنگ واضح ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں اس نے
’’حقیقی دا لین مزہ پہلوں چکھ کے لون مجازیاں دا‘‘
مثال کے طور پر چناب کے کنارے کی مشہور داستان’’ہیررانجھا‘‘ جسے لکھا تو بہت سوں نے ہے مگر ’’بھاگ بھری‘‘ کے عشق کی آگ میں جلنے والے عشق حقیقی کے مسافر ’’وارث شاہa‘‘ نے اسے جس رنگ میںپیش کر دیا زمانے کی کروٹیں اس سے بہتر بدل پیش نہ کر سکیں گی۔ آج بھی ’’جنڈیالہ شیرخان‘‘، ’’ٹھٹھہ جاہد‘‘ اور ملکہ ہانس میں ہمیں وارث شاہa کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ وارث شاہa نے
’’منج دی رسی وچ موتی پرو دتے نیں‘‘
یہ داستانیں کہیں تو وارث شاہa جیسے عظیم صوفیاء نے مجاز کو حقیقی کا پردہ قرار دے کر بیان کی ہیں اور کہیں سماج کی آواز یعنی اس دَور کے بھاٹوں اور گویوں نے اسے ’’لوک رس‘‘ کی تان میں ڈبو کر اَمر کر دیا ہے۔
شامل کتاب 29داستانوں میں سے صرف ’’دُلّابھٹی‘‘ اور ’’مورڑومیربحر‘‘ ایسی داستانیں ہیں جو روایتی عشق کے جذبے کا بیانیہ نہ ہیں باقی سب، محبت، عشق اور چاہت کا پیار بھرا اظہار ہیں۔
’’دُلّابھٹی‘‘ میں آن، عزت اور بیٹے کی باپ کے لیے محبت کا جذبہ اپنا رنگ دکھاتا ہے اور ’’مورڑومیربحر‘‘ میں بھائیوں کی خاطر جان کی بازی لگاتا مورڑومیربحر وفا کی علامت بن جاتا ہے۔ اس شاندار مرقعے میں ہمیں ایک نظر میں چاروں صوبوں کی ثقافت کا رنگ نظر آجاتا ہے، جو معمولی تغیر کے ساتھ سب جگہ ایک سی نظر آتی ہے۔ کون ہے جو ہیررانجھا، سسی پنوں، شہہ توردلئی، آدم درخانئی، شیریں دوستیں اور لِلہ گراناز میں فرق کرے؟
’’پاکستان کی لوک داستانیں‘‘ جس طرح محترم پروفیسرحمیداللہ شاہ ہاشمی صاحب فرماتے ہیں کئی جلدوں کا کام ہے مگر ان کا یہ ’’انتخاب‘‘ اپنی جگہ انتخاب ہے اور نمایندہ حیثیت رکھتا ہے اس میں دھرتی کا محبت بھرا رنگ دکھائی دیتا ہے اور یہی دراصل پاکستان اور اس کے لوگوں کی صدیوں سے پہچان ہے۔ آج پوری دُنیا ہمیں دہشت گرد گردانتی ہے حالاںکہ ہماری ہزاروں سال کی تہذیبی زندگی میں تو ایک لمحہ بھی ہمیں ’’انتہاپسند‘‘، ’’شدت پسند‘‘ اور ’’بنیادپرست‘‘ ثابت نہیں کرتا۔
یہاں رانجھا(دھیدو) مسلمان ہوتے ہوئے بھی ٹلہ جوگیاں ’’بال ناتھ‘‘ کے پاس ’’جوگ‘‘ لینے اور اس کا چیلہ بننے جا پہنچتا ہے۔
’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘
پورن بھگت کے قصے میں بھی ہمیں وہی اعلیٰ اخلاقی اصول ملتے ہیں جن سے دنیا کا کوئی مذہب بھی انکاری نہیں ہے۔ جس طرح شیخ سعدیa کی حکایات اسلامی رنگ لیے ہونے کی وجہ سے اپنے اندر اعلیٰ اخلاقی معیار رکھتی ہیں جسے دنیا کے کسی بھی خطے اور کسی بھی مذہب کا ماننے والا جھٹلا نہیں سکتا۔ ایسے ہی بلند اخلاقی اصول ہمیں اپنی ان لوک داستانوں میں نظر آتے ہیں۔
سچائی، وفاداری، رشتوں کا احترام اور ان سب سے بڑھ کر عشق کے امتحان میں ان کرداروں کی ثابت قدمی اور عشق کی سچائی میں جان قربان کر دینے کا جذبہ ایک الگ ہی کیفیت میں لے جاتا ہے۔
ان داستانوں کے ساتھ حواشی اور وضاحتی نوٹ نے ان کی تاریخی حیثیت کو بھی واضح کر دیا ہے اور محترم پروفیسرصاحب کی کاوش اور تحقیقی صلاحیت کُھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ آپ نے مستند مآخذ اور حوالہ جات سے ان کے استناد پر مہر لگا دی ہے جس سے نہ صرف بطور داستان لطف اٹھانے کے مواقع ہیں بلکہ ان داستانوں کی سچائی اور مبنی بر حقیقت ہونا ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
خطۂ پنجاب کی لوک داستانوں میں اور کچھ سندھ کی داستانوںکے تاریخی مباحث خاصے کی چیز ہیں۔ اس نے بہت سے محققین کا کام آسان کر دیا ہے، مگر دوسری بہت سی داستانوں کے ساتھ اس طرح کے تاریخی حوالے کی عدم موجودگی تشنگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ میری محترم پروفیسرحمیداللہ شاہ ہاشمی سے گزارش ہے کہ اس کے ازالے کی کوئی صورت کی جائے۔
پروفیسرقدیراحمدکھوکھر
قلعہ دیدار سنگھ، گوجرانوالہ
جون، ۲۰۱۷ء
.
.
Pakistan ki Lok Dastanain

Recently Viewed Products

پاکستان کی لوک داستانیں

Returns

There are a few important things to keep in mind when returning a product you have purchased from Dervish Online Store:

Please ensure that the item you are returning is repacked with the original invoice/receipt.

We will only exchange any product(s), if the product(s) received has any kind of defect or if the wrong product has been delivered to you. Contact us by emailing us images of the defective product at help@dervishonline.com or calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm) within 24 hours from the date you received your order.

Please note that the product must be unused with the price tag attached. Once our team has reviewed the defective product, an exchange will be offered for the same amount.


Order Cancellation
You may cancel your order any time before the order is processed by calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm).

Please note that the order can not be canceled once the order is dispatched, which is usually within a few hours of you placing the order. The Return and Exchange Policy will apply once the product is shipped.

Dervish Online Store may cancel orders for any reason. Common reasons may include: The item is out of stock, pricing errors, previous undelivered orders to the customer or if we are not able to get in touch with the customer using the information given which placing the order.


Refund Policy
You reserve the right to demand replacement/refund for incorrect or damaged item(s). If you choose a replacement, we will deliver such item(s) free of charge. However, if you choose to claim a refund, we will offer you a refund method and will refund the amount in question within 3-5 days of receiving the damaged/ incorrect order back.

What are you looking for?

Your cart