FREE SHIPPING | On order over Rs. 1500 within Pakistan

زمستاں کی بارش | خالد مسعود خان

In Stock Unavailable

sold in last hours

Regular price Rs.950.00 |  Save Rs.-950.00 (Liquid error (sections/product-template line 159): divided by 0% off)

-7

Spent Rs. more for free shipping

You have got FREE SHIPPING

ESTIMATED DELIVERY BETWEEN and .

PEOPLE LOOKING FOR THIS PRODUCT

PRODUCT DETAILS

زمستاں کی بارش

خالد مسعود خان

.

زمِستاں کی بارش میں خوشبو تمھاری
✍ خالد مسعود خان
یہ کالم بھلا کسی کتاب کے لیے لکھے ہی کب تھے؟ یہ تو وہ تحریریں ہیں جو مَیں نے صرف اور صرف اپنے لیے لکھی تھیں۔ اب یہ محض اتفاق کے علاوہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو ان کالموں میں اپنا آپ نظر آ جائے یا کوئی اپنے جیسا دکھائی دے۔ اگر مجھے خود کلامی کی عادت ہوتی تو مَیں یہ سب باتیں خود سے کر لیتا، لیکن کیا کروں؟ مجھے یہ ساری باتیں خود سے کرنے کے لیے انھیں لکھنا پڑا۔ اگر اپنا رانجھا راضی کرنے کی مجبوری نہ ہوتی تو نہ مَیں یہ سب کچھ لکھتا، نہ اخبار کی زینت بناتا اور نہ ہی انھیں کتاب کی شکل دیتا، لیکن وہی اپنا رانجھا راضی کرنے والا معاملہ درمیان میں آن پڑا ہے۔ مَیں نے سب کچھ اپنی ذات کے لیے لکھا کہ آخر خود پر میرا بھی تو کوئی حق ہے۔ بس خود پر اپنا بھی حق جانتے ہوئے لکھا اور اخبار میں محض اس یقین پر چھپنے کے لیے بھجوا دیا کہ ان کالموں کو کم از کم ایک قاری تو بہرحال میسّر ہو گا اور وہ قاری مَیں خود تھا۔
جہاں بندہ ہر روز صبح جب اخبار پر نظر ڈالے اور لگے کہ یہ وہ اخبار ہے جس کی تاریخ تو روز تبدیل ہوتی ہے مگر مندرجات وہی گزشتہ کئی برس سے محض الفاظ کے ہیر پھیر سے حسبِ سابق والے ہی ہیں تو ایسے میں بندہ خود سے مخاطب نہ ہو تو بھلا کیا کرے؟ جہاں عشروں سے این آر او کا حسنِ طلب چل رہا ہو، قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض لینے اور بانڈز جاری کرنے کا چلن ہو، جہاں پر ہر سودے کے پیچھے کمیشن کی کہانی ہو، جہاں ہر فیصلہ متنازع ہو، جہاں ہر اسامی پر غلط بندہ بیٹھا ہو، جہاں ہر کام میں میرٹ کے منہ پر طمانچہ مارا جا رہا ہو، جہاں احتساب صرف ”اپوزیشن“ کا مقدر ہو، جہاں ناانصافی غریب، لاوارث اور بے وسیلہ کی جدی پشتی جائیداد بن چکی ہو، جہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سانحہ ساہیوال تک کچھ بھی نہ بدلا ہو، جہاں حکمرانی سے محروم طالع آزما اپوزیشن جمہوری نظام کو غیر جمہوری طریقے سے لپیٹنے کو عین جائز تصور کرتی ہو، جہاں مہینوں تک زور آوروں کے زیر تفتیش رہ کر انکشافات کا طلسم ہوشربا تخلیق کر دینے والا عزیر بلوچ قسط در قسط مقدمات میں باعزت بری ہوتا جا رہا ہو، بھلا وہاں ہر روز کیا لکھا جائے؟ ایسے میں انسان خود سے ہم کلام نہ ہو تو اور کیا کرے؟ ایسے میں لکھنے والا کسی روز اپنے لیے نہ لکھے تو اور کیا کرے؟ یہ سب کالم وہی ہیں جو اس عاجز نے اپنے لیے لکھے ہیں۔
اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان تحریروں کے پیچھے ضمیر کی خلش، غیر ذمہ داری کا احساس اور نا آسودہ خواہشات کا ملال شامل نہیں۔ ماں جی، ابّا جی، فرزانہ، دوست، اُستاد، کتاب اور میرا ملتان۔ مَیں نے ان سب سے حسبِ استطاعت نہیں، بلکہ استطاعت سے بڑھ کر محبّت کی، خیال رکھا، احترام دیا، دل میں بسایا اور پھر دل کو ان کی یاد سے مہکائے رکھا۔ فقیر نے جب بھی اس بارے میں خود سے سوال کیا دل کو مطمئن، ضمیر کو صاف، محبّت کو سرخرو اور یادوں کو تازہ پایا۔ اس مالک کائنات سے، جو خود رحمان اور رحیم ہے، دُعا ہے کہ اگر اس سلسلے میں مجھ سے کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو معاف کرے اور درگزر فرمائے۔ بھلا اس کی کرم نوازی کے بغیر یہ ”نمانا“ کس ”جوگا“ تھا؟
محدود تمناؤں اور محدود تر خواہشات رکھنے والے اس عاجز کو لاحاصل کی جستجو تو لاحق نہیں لیکن کھو جانے کا ملال ضرور ہے۔ وہ رشتے ہوں، دوست ہوں، تعلق ہوں، محبّتیں ہوں یا ملتان ہو۔ ایسے میں معین نظامی کی ایک نظم یاد آتی ہیں...
کوئی رغبت نہیں دل کو
بہت سے چاند چہرے یاد آتے ہیں
جو میرے مطلعِ خواہش پہ چمکے تھے
اور اِک اِک کر کے گہناتے گئے تھے
کہ یہ گردش کی وہ مولائی سنت ہے
کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی
بس اِک دھندلا سا چہرہ ہے
کہ جس کی ٹمٹماتی ضو
ابھی تک دوستی کی
تیرہ روزی میں، بہت پر عزم ہو کر آتی جاتی ہے
مگر کب تک؟
کہ یہ چہرہ تو پھر بھی چاند جیسا ہے
اگر سورج بھی ہوتا تو بالآخر ڈوب ہی جاتا
اور اب ان ڈوب جانے والی چیزوں سے
کوئی رغبت نہیں دل کو
مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر معین نظامی کی اس نظم کے آخری پانچ مصرعے نہ ہوتے تو یہ نظم میرا دل ٹھہرتی، اس کے برعکس اگر یہ آخری پانچ مصرعے میرا دل ہوتے تو نہ ہجر کی اسیری ہوتی اور نہ ہی یہ کالم ہوتے۔
زندگی کا سفر بڑا مشکل ہے اور آپ کی مرضی سے نہیں کٹتا۔ ہاں! آپ کوشش کر کے اس کے پیچ و خم کو تھوڑا کم کر سکتے ہیں۔ جیسے آپ جی ٹی روڈ کے بجائے موٹروے پر سفر اختیار کر لیں۔ تاہم زندگی میں مسافرت سے نجات ملنا ممکن نہیں۔ یہ فقیر اپنی محدود تر خواہشات اور ضروریات کے طفیل زندگی کے اس سفر کو اپنے کم ترین سامانِ سفر کی بدولت ممکنہ حد تک آسان کر چکا ہے، تاہم سفر آخر کتنا آسان ہو سکتا ہے؟ خاص طور پر ایسے مسافر کا جس کے مختصر سے سامانِ سفر میں سے بھی سب سے ضروری چیز راستے میں کہیں رہ گئی ہو۔ اس سفر کے دوران جب جب بارش ہوتی ہے یادوں کا ایک ریلا ملال کی صورت در آتا ہے اور مَیں ہر بار ہی سوچتا ہوں کہ اب اس جگہ پر برآمدہ بنوا لوں جہاں ایک زمِستاں کی بارش میں اس نے پورچ میں کھڑے ہو کر اشارہ کیا اور کہا کہ ”اس جگہ برآمدہ ہونا چاہیے، بھلا یہ کیا ہوا کہ سردیوں کی بارش ہو اور گھر میں برآمدہ ہی نہ ہو۔“ اپنا یہ حال ہے کہ نو سال اسی کشمکش میں گزر گئے ہیں کہ برآمدہ بنواؤں؟ برآمدہ نہ بنواؤں؟ بات یہ نہیں کہ منجھلی بیٹی جو آرکیٹیکٹ انجینئر ہے اس برآمدے کی تعمیر کو تکنیکی اور چھوٹی بیٹی جمالیاتی بنیادوں پر مسترد کر چکی ہے بلکہ یہ ہے کہ اس برآمدے میں بیٹھ کر سردیوں کی بارش سے لطف لینے کے لیے اب گھر میں ہے ہی کون؟ مجھے تو گرمیوں میں بھی بارش سے صرف اس حد تک واسطہ رہا کہ اس سے ملتان میں موسم دو دن کے لیے بہتر ہو جاتا ہے اور بس۔
بارش جس کی کمزوری تھی وہی نہیں تو برآمدہ کس کام کا؟ گرمیوں کی بارش میں نہانے اور سردیوں کی بارش سے پورچ میں کھڑے ہو کر لطف لینے کے لیے اب گھر میں ہے ہی کون جس کے لیے برآمدہ بنوایا جائے؟ مگر یہ برآمدہ یادوں کی ایسی گانٹھ کی مانند ہے جس نے مجھے اس طرح باندھ رکھا ہے کہ کہیں اور کا نہیں رہنے دیا۔ جیسے خواجہ غلام فرید نے کہا ہے...
گنڈھیاں میڈیاں کھول نہ ماہی
ہن تیڈیاں سَے سَے گنڈھیاں
اٹک چٹک وَل اکھیاں اڑیاں
اَتے پَے گیاں چیڑھیاں گنڈھیاں
یار فرید! او سوہاگن ہوئیاں
جیڑھیاں نال ماہی دے گنڈھیاں
اور صرف برآمدے پر ہی کیا موقوف؟ اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ، ان کی باتیں، وعدے، یادیں اور ملال اس عاجز کے سامانِ سفر میں بندھے ہوئے ہیں۔ بقول ظفر اقبال...
کبھی کبھی تو میرا گمشدہ وجود ظفرؔ
میرے بندھے ہوئے اسباب سے نکلتا ہے
ان تحریروں میں کچھ خاص لوگ ہیں جو میرے ہیرو اور آئیڈیل ہیں۔ یہ بہت بڑے لوگ ہیں مگر میری زندگی میں یہ کم کم ہیں۔ بیشتر لوگ تو وہ ہیں جو میرے اپنے ہیں اور میری زندگی کا بڑا حصّہ ان سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ کوئی مافوق الفطرت یا ہم سے الگ قسم کے لوگ نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ زندگی گزارنے والے اور ہمارے دل میں بسنے والے بالکل عام سے لوگ ہیں۔ ظاہر ہے مجھ سے جُڑے ہوئے لوگ مجھ جیسے ہی ہوں گے، بالکل عام سے، خاک نشین۔ جیسے خورشید ہوٹل کے منے میاں، صادق حلوہ پوڑی والے غلام رسول، بوہڑ دروازے والے حکیم فیروز، مکول کلاں کے ماسٹر غلام حسن اور محلّہ غریب آباد کے ماسٹر محمد اقبال عرف ماسٹر بالی۔ یہ افراد تو ہیں ہی نہیں، یہ تو فقط رشتے ہیں اور ہماری زندگی کا حصّہ ہیں اور بھلا میں ہی کیا؟ ہر شخص کی زندگی ایسے ہی لوگوں سے جگمگاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو ہماری بے کیف اور بے رنگ زندگی کو محبّت کا رنگ بخشتے ہیں۔ سب کی زندگی محبّت کے انھی رنگوں سے فروزاں ہے۔ محبّت کے ہزار رنگوں میں سے محض دو چار رنگ، بس یہ رنگ صرف اس لیے خاص ہیں کہ یہ خواجہ کے وہ رنگ ہیں جو امیر خسرو سے ہوتے ہوئے اس عاجز تک پہنچے اور ایسے چڑھے کہ وقت کی دھول میں مدہم ہونے کے بجائے ہر گزرتے دن پہلے سے بڑھ کر رنگین تر ہوتے گئے...
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے...
نہ تو تنہائی ہی کوئی Fascinate کرنے والی شے ہے اور نہ ہجر ہی کوئی Glamorous چیز ہے۔ یہ تو بس گزارنے اور بھگتانے والی کیفیات ہیں۔ میرے لیے یہ چھے سے چل کر ایک ہو جانے کی مرحلہ وار صورتحال ہے۔ پہلے ابا جی، ماں جی، بھائی طارق، دو بہنیں اور مَیں۔ ہم چھے لوگ تھے۔ پھر مَیں، فرزانہ، کومل، سارہ، انعم اور اسد چھے لوگ تھے۔ ”وہ“ گئی تو باقی پانچ، کومل رخصت ہوئی تو چار، سارہ وداع ہوئی تو باقی تین۔ اللہ نیک نصیب کرے اور خوشیاں عطا کرے، باقی انعم اور اسد ہیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ یہ اپنے گھر کے ہوں گے۔ پھر وہی ایک، جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی اور اس کے بعد، رہے نام اللہ کا ”وَ یَبقٰی وَجہُ رَبِّکَ ذُوالجَلَال وَالاِکرَام۔“ باقی درمیان میں ہجر ہے اور ہجر بچھڑ کر دوبارہ ملنے کے درمیان میں انتظار کا نام ہے۔ انتظار کے بارے میں عربی کہاوت ہے: ”اَلاِنتِظارُ اَشَدُّ مِنَ المَوت“ (انتظار موت سے بھی شدید تر ہوتا ہے) ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے انتظار کے پل صراط کا مسافر ہے اور یہ عاجز بھی انھی مسافروں میں یکے از مسافر ہے۔
اگر میری مرضی چلتی تو ان کالموں کا مجموعہ تو ہرگز بھی نہ چھپتا، لیکن اس سلسلے میں میری مرضی چلی ہی کب ہے؟ ان کالموں کو اخبار سے کتاب کی صورت میں لانے کے ذمہ دار تین لوگ ہیں۔ واہ کا محمد عارف اور لائل پور کا طارق جاوید تو وہ دو لوگ ہیں جو ایک عرصے سے اس بات کے در پے تھے کہ مجھے اپنے ”یہ والے“ کالم اکٹھے کر کے شائع کرنے چاہئیں۔ خدا جانے ان کے دل میں یہ خیال کیوں کر آیا کہ دوسرے لوگوں کو ایسے کالموں سے کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ان دونوں کو تو مَیں برسوں سے بھگتا رہا تھا اور مسلسل گولی دیے جا رہا تھا کہ ”کچھ کرتا ہوں“ مگر پھر شاکر حُسین شاکر درمیان میں کود پڑا اور اس نے تو ”اخیر“ ہی کر دی کہ اب یہ والے کالم ایک مجموعے کی صورت اس کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔ مَیں نے لاکھ کہا کہ بھلا کسی کو ان کالموں کی کیا حاجت ہو گی؟ وہ کہنے لگا کہ اس دُنیا میں بہت سے لوگ ان کالموں میں تمھارے حصے دار ہیں۔ ہر وہ شخص جس کی ماں جی چلی گئیں ہیں، ابا جی رخصت ہو گئے ہیں، فرزانہ جدا ہوئی ہے، دوست چھوڑ گئے ہیں، اُستاد یادِ ماضی کا حصہ ہیں اور جن سے محبّت تھی وہ کُوچ کر گئے ہیں۔ وہ سب لوگ ان کالموں اور تحریروں کے صرف قاری نہیں بلکہ حصے دار ہیں اور ان پر حقِ ملکیت رکھتے ہیں۔ تم نے جو لکھنا تھا لکھ دیا، اگلے روز پڑھنا تھا پڑھ لیا۔ تمھارا حقِ ملکیت بس اسی قدر تھا، باقی ان کا ہے جو تمھارے ساجھے دار ہیں۔ میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ سو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے تمام تر بُرے بھلے کے ذمہ دار یہی تین لوگ ہیں جن کا یہ سب کیا دھرا ہے۔ مَیں تو اس معاملے میں سمجھیں بالکل ہی بری الذمہ ہوں۔
خالد مسعود خان
یکم ستمبر 2021ء
10-گرین لین، زکریا ٹاؤن، ملتان

 

 

Zamistan Ki Barish

Khalid Masood Khan

Pages: 415
Year: 2021
Categories: COLUMNS ESSAYS MEMOIRS

Recently Viewed Products

زمستاں کی بارش | خالد مسعود خان

Returns

There are a few important things to keep in mind when returning a product you have purchased from Dervish Online Store:

Please ensure that the item you are returning is repacked with the original invoice/receipt.

We will only exchange any product(s), if the product(s) received has any kind of defect or if the wrong product has been delivered to you. Contact us by emailing us images of the defective product at help@dervishonline.com or calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm) within 24 hours from the date you received your order.

Please note that the product must be unused with the price tag attached. Once our team has reviewed the defective product, an exchange will be offered for the same amount.


Order Cancellation
You may cancel your order any time before the order is processed by calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm).

Please note that the order can not be canceled once the order is dispatched, which is usually within a few hours of you placing the order. The Return and Exchange Policy will apply once the product is shipped.

Dervish Online Store may cancel orders for any reason. Common reasons may include: The item is out of stock, pricing errors, previous undelivered orders to the customer or if we are not able to get in touch with the customer using the information given which placing the order.


Refund Policy
You reserve the right to demand replacement/refund for incorrect or damaged item(s). If you choose a replacement, we will deliver such item(s) free of charge. However, if you choose to claim a refund, we will offer you a refund method and will refund the amount in question within 3-5 days of receiving the damaged/ incorrect order back.

What are you looking for?

Your cart