کتاب: منطق الطیر (اردو)
مصنف: شیخ فرید الدین عطار نیشاپوری
تسہیل و تکمیلِ ترجمہ: ڈاکٹر محبوب کاشمیری
تدوینِ فارسی متن: قدیر احمد کھوکھر، سَید امیر کھوکھر
مقدمہ: ڈاکٹر سیّد تقی عابدی
سرورق: محمد شکیل طلعت
تصاویر، تزئین و زیبائش: ابوامامہ
خطّاط: احمد علی بھٹہ
فارسی متن مع اُردو ترجمہ
ضخامت 723 صفحات | مجلد | مصوّر ایڈیشن
(بُک مارک کے طور پر مور کا پنکھ ہمراہ حاصل کریں)
.
آ گیا وہ شاہکار جس کا تھا انتظار !!
نو سو سال قبل لکھی گئی عظیم صوفی شاعر شیخ فرید الدین عطار نیشاپوری کی فارسی زبان میں کتاب ’’منطق الطیر‘‘ جسے ’’مقامات طیور‘‘ بھی کہا جاتا ہے، انگریزی میں "The Conference of the Birds" اور "Bird Parliament" کے نام سے مشہور، ایک طویل مثنوی ہے، جسے ادب کے علاوہ تصوف و معرفت میں بڑا مقام حاصل ہے۔ تقریباً چار ہزار چھ سو اشعار پر مشتمل اس مثنوی کو عطارؔ نے 29 حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ بعض حصوں کو روایتی انداز میں اور اَن گنت مطالب کو پرندوں کی زبان میں بیان کیا ہے۔ اس کا مرکزی موضوع عرفان و اخلاقیات ہے۔ اس میں سب سے اہم اور دلچسپ حکایت جو تمثیلی انداز میں بیان کی گئی ہے وہ ان پرندوں کی ہے جو ہُدہُد کی رہبری میں اپنے بادشاہ کی تلاش میں دُشوار گزار وادیوں سے گزرتے ہیں۔ شیخ عطارؔ دراصل اس مثنوی میں پرندوں کے ذریعے اپنے مالک حقیقی کے تلاشنے میں نہایت مؤثر انداز میں سیر و سلوک کی راہیں متعارف کراتے ہیں۔
منطق الطیر کا مطلب ہے پرندوں کی گفتگو، جیسا کہ عنوان سے ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس مثنوی میں پرندوں کی زبان میں مطالب بیان کیے گئے ہیں۔ یہ ہماری انسانی جدوجہد، جسمانی اور روحانی دونوں کے بارے میں ایک تشبیہاتی نظم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم خود اس کہانی کے پرندے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب کے اپنے اپنے نظریات ہیں، ہمارے اپنے خوف اور خدشات ہیں۔ اس کہانی کے پرندوں کی طرح، ہم ایک ساتھ محوِ پرواز ہو سکتے ہیں، لیکن سفر خود ہم میں سے ہر ایک کے لیے مختلف نتائج و ثمرات کا حامل ہو گا۔ عطارؔ ہمیں بتاتے ہیں کہ سچ جامد نہیں ہے اور یہ کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق من چاہی سچائی کے راستے پر چلتا ہے۔ یہ ترقی کرتا ہے جیسا کہ ہم ترقی کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنے عقیدے میں پھنسے ہوئے ہیں، سخت عقائد سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ اپنے رَبّ کی طرف اذنِ سفر سے محروم ہیں، جسے عطار عظیم سمندر کہتے ہیں۔
ہم اس عظیم صوفی شاعر کی تعظیم کرتے ہیں، ایک ایسا شاعر جن کے خوبصورت اشعار اور عظیم خیالات کے سب لوگ قدر دان ہیں۔ ان کی وفات کو نو صدیاں بیت جانے کے باوجود ایران ان جیسا بلندپایہ شاعر پیدا نہ کر سکا۔ ماسوائے جلال الدین رومیؔ کے، اور وہ بھی خود شیخ عطارؔ کی فوقیت اور فضیلت کے معترف تھے۔
شیخ عطار کو صوفی شعرا میں جو مرتبہ اور قدر و منزلت حاصل ہے اس کی وجہ ’’منطق الطّیر‘‘ ہی خیال کی جاتی ہے۔ ایک ایسی عظیم کتاب جسے دُنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور دُنیائے ادب میں قبولِ خاص و عام اور زندگیٔ دوام حاصل ہے۔ چند نمایاں تراجم قابلِ ذکر ہیں:
1863ء - گارساں دتاسی نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اور La Conférence des oiseaux کےنام سے پیرس سے شائع ہوا۔
1889ء - فیٹز جیرالڈ نے انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ کیا اور "Bird Parliament: A Bird's-Eye view of the Bird Parliament" کےنام سے شائع ہوا۔
1924ء- آر پی مسانی نے " Conference of the Birds: A Seeker's Journey to God" کے نام سے انگریزی میں ترجمہ و تلخیص کی اور اسے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔
1929ء - بائرن اریک نے فرانسیسی سے سویدی زبان میں ترجمہ کیا۔
1954ء- سی ایس ناٹ نے گارساں دتاسی کے فرانسیسی ترجمے سے انگریزی زبان میں"The Conference of the Birds"کے عنوان سے ترجمہ کرکے لندن سے شائع کیا۔
1962ء- غلام حسین جلبانی نے ’’ پکين جي پارليامينٽ‘‘ کے نام سے سندھی ترجمہ کیا اور سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد سے شائع ہوا۔
1977ء- پیٹر بروک اور جین کلاڈ کیریئر نے مثنوی کو ایک ڈرامے میں تبدیل کیا اور شائع کروایا۔ اس کا عنوان تھا، "La Conférence des oiseaux"۔
1979ء- ڈاکٹر بدیع محمد جمعہ نے عربی میں ’’منطق الطیر لفرید الدین العطار النیسابوری‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا اور دارالاندلس، بیروت، لبنان سے شائع ہوا۔
1984ء- تہران سے افخم دربندی اور اُن کے شوہر ڈِک ڈیوس نے بالاشتراک "The Conference of the Birds" کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کیا اور انگلستان سے پینگوئن کلاسکس کے زیرِاہتمام اشاعت ہوئی۔
1998ء- پیٹر ولیم ایوری "The Speech of the Birds" کے نام سے انگریزی ترجمہ کیا اور برطانوی پبلشنگ کمپنی اسلامک ٹیکسٹس سوسائٹی نے شائع کیا۔
2013ء- افخم دربندی اور ڈِک ڈیوس کے ترجمے کا "The Canticle of the Birds" کے نام سے مصور ایڈیشن شائع ہوا جو خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
2014ء- ترقی پسند ادیبہ اور شاعرہ فہمیدہ ریاض نے "The Simurgh and the Birds" کے نام سے انگریزی ترجمہ و انتخاب کیا جو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی سے شائع ہوا۔
اس ابتدائی تمہید کے بعد اب ہم اس ترجمے کی طرف آتے ہیں جس نے ہمارے کام کو مہمیز دی۔ اس کتاب کا اُردو زبان میں اوّلین ترجمہ جناب آغا محمداشرف صاحب بی اے دہلوی نے ’’لسانُ الطّیر شرح منطق الطّیر‘‘ کے نام سے 1939ء میں کیا اور شیخ مبارک علی تاجر کتب اندرون لوہاری دروازہ لاہور سے شائع کروایا۔ اسے نول کشور پریس کے مطبوعہ فارسی نسخے کے مطابق اُردو قالب میں منتقل کیا گیا تھا۔ اس ترجمے میں جہاں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ بالآخر اس عظیم کتاب کو اُردو زبان میں منتقل کر دیا گیا ہے، وہاں کچھ خامیاں بھی پائی گئیں۔ بدقسمتی سے انھوں نے نول کشور کے جس نسخے سے ترجمہ کیا وہ اغلاط اور فروگزاشتوں کا مجموعہ ہے۔ بعض جگہ پورے پورے ابواب اور کچھ مقامات پر اشعار ہی حذف ہیں۔ دوسرا یہ کہ ترجمہ تو دے دیا گیا مگر اصل فارسی متن شائع کرنے کی زحمت نہ کی گئی۔
لہٰذا، اس عظیم کتاب کے وقار اور اس کی خوب صورتی کو برقرار رکھنے کے لیےخاکسار سے اس کتاب کی تزئینِ نو اور تسہیل و تکمیلِ ترجمہ کی بابت دریافت کیا۔ ایک شاعر ہونے کے ناتے فارسی شعر و ادب سے دلچسپی تو شروع سے ہی تھی، خوشی خوشی یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ متعلقہ مواد اور کتابیں فراہم کرنے میں امرشاہد صاحب کا کردار مثالی ہے۔ ان کے دوست محترم عارف حق پرست نے فارسی کا ایک جدید نسخہ افغانستان سے خرید کر بھجوا دیا جو کام کے دوران بےحد معاون ثابت ہوا۔
بالآخر، دو سال کی محنت رنگ لائی اور جو خلا اس کتاب میں رہ گئے تھے انھیں پورا کر دیا گیا۔ ترجمے میں سقم کو دُور کرنا ازبس ضروری تھا۔ حسبِ ضرورت مناسب ترمیم اور اصلاح کی گئی۔ اب یہ ترجمہ اوّل سے آخر تک رواں اور برجستہ ہے۔ مزید یہ کہ پہلی مرتبہ ’’منطق الطیر‘‘ کامل، اصل فارسی متن اور رواں نثری ترجمے کے ساتھ منظرِ عام پر آ رہی ہے۔
پروفیسر انور مسعود صاحب کی مبسوط رائے اور ڈاکٹر سیّد تقی عابدی صاحب کے مقدمے نے اس کتاب کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔ ساتھ ہی پروفیسر قدیر احمد کھوکھر اور پروفیسر سَید امیر کھوکھر بےمثال سہارا بنے، دونوں نے انتہائی محنت سے فارسی متن کو اس کتاب کی خاطر ترتیب دیا۔ انور مسعود صاحب نے فارسی متن میں بعض مقامات پر اغلاط کی نشان دہی کی تو اُنھی کے مشورے پر مکمل فارسی متن کی ازسرِنو حروف خوانی کرائی گئی، پروفیسر سَید امیر کھوکھر صاحب خاص شکریے کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اس کارِخیر کو سرانجام دیا۔ شاہد صاحب کے حوصلے کو بھی داد دیتا ہوں، تحریک بھی انھوں نے دی اور صبروتحمل کا مظاہرہ بھی کیا۔
جس خلوص اور محبّت سے ان تمام احباب نے میری راہنمائی کی، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس اعانت اور مدد کے بغیر میں اس شاہکار کتاب پر کام کا سرے سے ارادہ ہی نہیں کر سکتا تھا اور اگر کر بھی لیتا تو میں تنہا اس کام کو انجام نہ دے پاتا۔
مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب اُردو میں ویسی ہی مقبولیت حاصل کرے گی جیسی کہ دُنیا بھر میں حاصل کر چکی ہے۔ ان رسمیات کے بعد میں بلاجھجک قاری کی طرف یہ کتاب بڑھاتا ہوں۔
ڈاکٹر محبوب کاشمیری
بھمبر (آزاد کشمیر)
Mantaq Al Tair | Deluxe Edition
Author: SHEIKH FARID UD DIN ATTAR
Translator: MAHBOOB KAASHMIRI
Pages: 723