FREE SHIPPING | On order over Rs. 1500 within Pakistan

Kahe Faqeer | کہے فقیر

In Stock Unavailable

sold in last hours

Regular price Rs.799.00 |  Save Rs.-799.00 (Liquid error (sections/product-template line 159): divided by 0% off)

Hurry, Only -18 left!
-18

Spent Rs. more for free shipping

You have got FREE SHIPPING

ESTIMATED DELIVERY BETWEEN and .

PEOPLE LOOKING FOR THIS PRODUCT

PRODUCT DETAILS

کہے فقیر

دل کی گہرایئوں سے نکلی روحانی گفتگو

سرفراز اے شاہ

-

سرفراز اے شاہ 12 جون 1944 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک سید گھرانے سے ہے۔ آپ ایک اعلیٰ تعلیم پیشہ ور آدمی ہیں۔ مختلف سرکاری اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ برمنگھم یونیورسٹی میں مینجمنٹ پر لیکچر بھی دے چکے ہیں۔ ان دنوں پاکستان کے معروف صنعتی گروپ سے وابستہ ہیں۔65 ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ دنیاوی تعلیمات کے ساتھ اسلامی اور روحانی تعلیم میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں َ

کتابیں
اُن کے کتابی سلسلے کا آغاز کہے فقیر سے ہوا۔ اس کی کتابوں کی فہرست اس طرح سے ہیں:

کہے فقیر
فقیر رنگ
فقیر نگری
لوح فقیر

-
سید سرفراز اے شاہ صاحب کہتے ہیں:
بچپن میں شرارتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ والد صاحب کا فوج سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا لیکن انہوں نے ہماری تعلیم کی خاطر ہمیں لاہور میں ہی رکھا، اس لیے ہم بہن بھائیوں پر والدہ کا کنٹرول تھا. اگرچہ والدہ کی تعلیم زیادہ نہیں تھی لیکن انتظامی لحاظ سے وہ بہت اچھی تھیں، انہوں ہم سب بہن بھائیوں کو بڑے ڈسپلن کے ساتھ رکھا۔ کم عمری میں ہی میں نے باجماعت نماز پڑھنی شروع کر دی لیکن دو چار ماہ باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد چھوڑ دی، پھر کچھ عرصہ بعد شروع کر دی، یوں یہ سلسلہ چلتا رہا البتہ جو بات مجھے ہمیشہ خوشی دیتی ہے (خوشی بھی وہ جو اندر پیدا ہوتی ہے) کہ جب میں پانچویں کلاس میں تھا تو ان دنوں میں میرے والد صاحب کی پوسٹنگ لاہور میں ہی تھی، وہ رات کے وقت دوستوں کے پاس گئے ہوئے تھے،میں عشاء کی نماز مسجد میں پڑھنا چاہتا تھا، والدہ کہہ رہی تھیں کہ اگر تم عشاء کی نماز پڑھنےگئے تو تمہارے آنے سے پہلے تمہارے والد آجائیں گے اور تمہیں مار پڑ جائےگی، وہ اپنی جگہ سچی تھیں اور مجھے مار سے بچانا چاہ رہی تھیں لیکن میں جانے کے لیے بضد تھا، خیر والدہ کا حکم مانتے ہوئے میں مسجد نہیں گیا اور اپنے بیڈ پر ہی نماز پڑھ لی اور اللہ تعالیٰ سےدعا کی کہ اے اللہ تو جانتا ہےکہ میں باجماعت نماز ادا کرنا چاہ رہا تھا لیکن مجھےاجاز ت نہیں ملی. نماز پڑھنے کے بعد میں سو گیا تو رات کو زندگی میں پہلی بار مجھے آپ ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ ایک ایسی یاد ہے جو آج بھی اسی طر ح میرے ذہن میں تازہ ہے اور میرے اندر خوشی پیدا کرتی ہے۔ اس یاد کا کمال یہ ہےکہ آج اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی جب بھی یہ چیز یاد آتی ہے تو اندر سے ایک خوشی اٹھتی ہے۔

میری پہلی جاب سوئی گیس کی تھی، 7 جولائی 1966ء کومیں نے ملتان میں 22 سال اور 25 دن کی عمرمیں جوائن کیا۔ یہ وہ دور تھا جب میں مستقل نماز پڑھتا تھا اور چالیس سے زائد وظیفے صبح اور چالیس سے زائد وظیفے شام کو پڑھتا تھا اور وہ بھی بغیر کسی اجازت اور رہنمائی کے۔ میں چونکہ وہاں پر اکیلا رہتا تھا، گھر بڑا تھا، جو لوگ دفتر میں عارضی ڈیوٹی پر آتے یا ٹرانسفر ہو کر آتے، انہیں رہائش کا مسئلہ ہوتا تو میں ان کو رہنے کی جگہ دے دیا کرتا تھا، یوں ہمیشہ میرے ساتھ چار پانچ لوگ رہتے تھے۔ ان دنوں میں روحانیت کے بہت زیادہ تجربا ت اور مشاہدے کر رہا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ میری ظاہری شکل و صورت، گفتگو، اٹھنا، بیٹھنا، لباس اس قسم کا تھا کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میں عبادت کرتا ہوں گا۔

اس وقت برٹش گورنمنٹ حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کی وجہ سے محکمہ گیس چلا رہی تھی، یہ معاہدہ میرے جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہوگیا، اور سوئی گیس پاکستانی کمپنی بن گئی۔ میرے ایک سینئر ساتھی ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ قوانین کےمطابق جو لوگ 60 سال سے زائد عمر کے ہیں، وہ ریٹائر ہو جائیں گے، اس حساب سے میری بھی ریٹائرمنٹ بنتی ہے، (اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زائد تھی)، آپ کے پاس ٹرینی کی جگہ خالی ہے، میرے بیٹے کی تعلیم ایم اے انگلش ہے، سی ایس ایس کا امتحان بھی پاس کیا ہوا ہے، لیکن انٹرویو میں رہ گیا تھا، اب اسے جاب کی ضرورت ہے۔ میں جب ریٹائر ہو جاؤں گا اور وہ جاب پر ہوگا تو گھر کے معاملات چلتے رہیں گے لہذا آپ اسے رکھ لیں. میں نے کہا کوئی بات نہیں، آپ صبح اپنے بیٹےکو لے آئیں۔ اگلے دن وہ صاحب تشریف لائے، ان کے پیچھے پیچھےایک اور صاحب بھی تھے، انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ عمر میں میرے ساتھی سے بھی بڑے ہیں۔ میرے ساتھی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ میرے بیٹے صفدر انصاری ہیں، جیسے ہی یہ الفاظ ان کے منہ سے نکلے تو غیر ارادی طور پر بےساختہ میری زبان سے نکلا ’’اوہ تایا ابا‘‘ کیونکہ وہ عمرمیں اپنے والد سے بھی بڑے لگ رہےتھے۔ میں نےاتنی عمر ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی خاص ٹیسٹ، انٹرویو نہیں لیا اور ٹرینی کےطور پر رکھ لیا. یہ اور بات ہے کہ صفدر انصاری صاحب ریٹائر ہونے تک ’’تایا ابا‘‘ کے نام سے ہی مشہور رہے۔

صفدر انصاری ’’تایا ابا‘‘ روزانہ صبح دفتر آتے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتے، ان کے صرف ہونٹ ہلتے تھے، آواز نہیں آتی تھی، ہونٹوں کی جنبش سے مجھے سلام کہتے، میں جواب دے دیتا، میں جتنا کام انہیں بتاتا، وہ بغیر بولے سن لیتے اور اس پر عمل کرلیتے۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ سارا دن کاغذ پر کچھ لکھتے رہتے اور کاغذ کو کہیں رکھ دیتے. ایک دن میں یک لخت ان کے ڈیسک پر جا پہنچا، جس کی وجہ سے انھیں کاغذ چھپانے کا موقع نہیں ملا، میں نے وہ کاغذ دیکھ لیا، اس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے تھے,
میں نے ان سے پوچھا تایا ابا، یہ سارا دن آپ کیا کرتے رہتے ہیں؟
’’جس راہ پر آپ جا رہے ہیں، کبھی میں بھی اس راہ کا راہی تھا‘‘ انھوں نے جواب دیا.
’’میں کس راہ کا راہی ہوں‘‘ میں نے پوچھا.
کہنے لگے ’’جب میں پہلے دن آیا تھا تو مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ آپ کس راہ پر ہیں۔‘‘
میں نے پھر پوچھا ’’بھئی میں کس راہ پر ہوں۔‘‘
کہنےلگےکہ ’’آپ پڑھائی کرتےرہتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’تایا ابا! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، میں تمہیں کہاں سے اللہ اللہ کرنے والا لگتا ہوں۔‘‘
کہنےلگے ’’آپ اللہ اللہ کرتے ہیں، اور بہت کرتے ہیں، آپ جتنی تسبیحات پڑھتے ہیں، ایک تسبیح میں بھی بتاتا ہوں، وہ پڑھیں، اس سے آپ کی یہ راہ آپ پر آسان ہو جائےگی۔‘‘

یہ سن کر میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ خیر انہوں نے مجھےایک وظیفہ پڑھنےکو کہا۔ میں نے اسی شام کو وہ تسبیح پڑھنا شروع کر دی۔ میں کمرے کا دروازہ بند کر کے تنہائی میں عبادت کیا کرتا تھا، اس تسبیح کو پڑھتے ہوئے ابھی آٹھ دس دن ہی ہوئے تھے کہ ایک روز میں اپنی روٹین میں تنہائی میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ایک آواز سنائی دی ’’السلام علیکم‘‘ اور ایک صاحب اندرآ ئے۔ ان کے پیچھے پیچھے کئی اور لوگ بھی آ گئے، مجھے شدید حیرت ہوئی کیونکہ میں نے تو دروازہ بند کیا ہوا تھا، اور وہ لوگ دروازہ کھلے بغیر اندر آ گئے، اتنا شکر ہے کہ میں نے پڑھنا بند نہیں کیا تھا بلکہ ڈر کے مارے میری رفتار اور زیادہ تیز ہوگئی۔ جونہی وہ وظیفہ ختم ہوا، وہ لوگ جیسے آئے تھے، ویسے ہی سلام کر کے واپس چلے گئے۔ اگلے دن میں دفتر گیا تو تایا ابا کو پکڑ لیا اور کہا کہ ’’تایا ابا! یہ آپ نے مجھے پڑھنے کو کیا بتا دیا۔‘‘ وہ کہنےلگے کہ ’’جو آپ کے ساتھ ہوا ہے، یہی کچھ ہوتا ہے لیکن یہ اتنی جلد ی ہوتا نہیں ہے۔‘‘ وہ کاغذ پر کچھ لکھتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’یہ اصل میں آپ کو آپ کے بزرگوں کی محنت کا پھل ملا ہے، محنت انہوں نے کی لیکن پھل آپ نے کھایا ہے، جس کی وجہ سے یہ اتنی جلدی ہوگیا۔‘‘ اس کے بعد میں وظیفہ پڑھتا رہا اور بہت سی چیزیں نظر آنے لگیں، ان میں قرآنی آیت ترجمہ ’’اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘، جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے، وہ دکھائی دینے لگی اور اشارہ ہونے لگا کہ اسے پڑھو، میں نے اس کو نہیں پڑھا لیکن میں پریشان ہوگیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ پیش آتا ہے، بلکہ جو لوگ میرے ساتھ رہتے ہیں وہ بھی ڈرتے رہتے تھے۔

گرمیوں کےدن تھے۔ ایک دن میں دوپہر کے وقت دفتر سے نکلا اور قلعہ پر چلا گیا۔ وہاں پر میرے دل میں آیا کہ کیوں نہ میں حضرت شاہ رکنِ عالم ؒ کےمزار پر حاضری دوں۔ جب میں وہاں گیا تو ان کی آرام گاہ سے پہلے ایک کمرہ ہے، میں اس کمرے سے ہی ڈرگیا، مجھ پر عجیب ہیبت طاری ہوئی، میں واپس چلا گیا، اگلے دن پھر گیا لیکن ڈر کے باوجود اندر چلا گیا اور حاضری دی، فاتحہ پڑھی، اور انہیں اپنا روحانی مرشد مان لیا۔ مرشد ماننے کے بعد وہ سب چیزیں جو نظر آیا کرتی تھیں، وہ ایک ایک کر کے کم ہونا شروع ہو گئیں اور کچھ ہی عرصہ میں ختم بھی ہوگئیں اور میں بڑے اطمینان سےعبادت کرنےلگ پڑا۔ 30 جنوری 1979ء کو سوئی گیس چھوڑ کر میں لاہور آگیا اور کچھ عرصہ کے بعد مرشد صاحب سے ملاقات کی۔ ایک بار میں پشاور میں کانفرس کے لیے جا رہا تھا توشاہ صاحب فرمانے لگے کہ چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں، راستے میں میں نےدیکھا کہ ان کا موڈ بہت اچھا ہے، میں نے سوچا کہ میرے ذہن میں جو چیزیں اور سوال ہیں، وہ میں پوچھ لیتا ہوں، ان میں یہ آیت بھی لکھی ہوئی تھی، جب میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ اچھا ہوا، وہ تم نے نہیں پڑھا، اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس سے بچا لیا، اصل میں اس آیت کو جنات دکھاتے تھے، اگر تم اس کو پڑھ لیتے تو مجذوب ہو جاتے۔

1984ء میں مجھے دعا کی اجازت ہوگئی تھی لیکن میں چونکہ ملازمت میں تھا، اس لیے ان چیزوں سے دور رہا۔ ایک دفعہ میں ایک میٹنگ میں گیا جہاں میری گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ تھی، وہاں پر ایک صاحب (وہ بھی سید زادے تھے) جن کی عمر پچاس سال سے زائد تھی، کا سامان پڑا ہوا تھا اور وہ صاحب اس پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ میرے ڈرائیور نے گاڑی کھڑی کرنے کے لیے اس سے الجھنےکی کوشش کی لیکن میں نے منع کر دیا۔ جب میں اپنے کمرے میں جانے کے لیے ان کے قریب سےگزرا تو میں نے دیکھا کہ وہ صاحب آنسوؤں سے رو رہے ہیں، میں نے رک کر پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نےجواب دیا، ’’صاحب! بیسمنٹ میں میرا پرنٹنگ پریس تھا جو کرائے پر تھا، میں مالک کو کرایہ نہیں دے پایا، آج وہ آیا اور سامان نکال کر باہر پھینک دیا۔‘‘ انہوں نے جس انداز میں اپنی کہانی بیان کی، اس سے میں بہت متاثر ہوا، اس نے مجھے سوچنے پر مجبورکر دیا۔ میں نےان سے غصے میں کہا ’’آپ بےفکر رہیں، جس طرح سے ان صاحب نے سامان نکالا ہے، اسی طرح وہ اپنے ہاتھ سے رکھیں گے اور کرائے کی فکر نہ کریں، آپ کو بہت ملےگا‘‘۔ یہ کہہ کر میں اپنے آفس چلا گیا۔ ڈیڑھ دوگھنٹے کے بعد میرے سیکریٹری نے کہا کہ ’’صاحب! فلاں شاہ صاحب آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کس سلسلے میں‘‘ تو اس نےکہا کہ ’’وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے شکریہ ادا کرنا ہے‘‘ میں نےکہا ’’بھیج دو‘‘، جب وہ اندر آئے تو میں نے دیکھا کہ وہ وہی صاحب تھے جو رو رہے تھے، میں نے پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ انہوں نےکہا ’’بڑی مہربانی آپ کی، مالک مکان میرے پاس آیا، اس نےمجھ سے معافی مانگی اور اپنے آدمیوں سے میرے سامان کو پھر اسی جگہ پر رکھ دیا، اور کہہ دیا کہ تین ماہ کے بعد کرایہ دے دینا‘‘، میں نےکہا ’’جائیں، مزے کریں، اللہ تعالیٰ نےآپ کا کام کردیا‘‘، وہ صاحب کہنے لگے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا شکر تو ادا کر رہا ہوں لیکن میں نے کہا کہ آپ کا شکریہ بھی ادا کردوں‘‘، میں نے کہا بڑی مہربانی، اور وہ صاحب چلے گئے۔

دو دن کے بعد دو نوجوان میرے پاس آئے اور کہنےلگے کہ ’’وہ صاحب ہمارے رشتہ دار ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا اور ہم آپ کے پاس آگئے ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے بھی دعا کر دیں‘‘، میں نےکہا ’’میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، میں گنہگار آدمی ہوں، میں نےکیا دعا کرنی ہے‘‘، لیکن وہ کہنے لگے کہ ’’نہیں، بس آپ دعا کر دیں‘‘، ان میں ایک نے ہارویسٹ مشین خرید کر کرائے پر دی ہوئی تھی، اس نےکہا کہ میرا یہ کام ہے، اس کے لیے دعا کردیں، میں نے کہا ’’بھئی یہ تونہیں چلےگا، اس میں آپ کو بہت نقصان ہوگا۔‘‘ اسی طرح دوسرے نوجوان نے بھی اپنی بات کی اور چلےگئے۔

دو چار دن کے بعد ایک صاحب تشریف لائے، ان کے چہرے سے پتا لگ رہا تھا کہ وہ بڑے نیک اور بڑے پڑھے لکھے ہیں، کہنے لگے ’’میں آپ سے ملنے آیا ہوں، آپ کے بارے میں سنا ہے، مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا شوق ہے‘‘، میں نے انہیں پاس بٹھا لیا، وہ باتیں کرتے رہے، جب چلنے لگے تو میں نے کہا آپ نے نام نہیں بتایا تو انھوں نے جواب دیا ’’میرا نام جسٹس شمیم قاضی ہے۔‘‘ ( بعد میں پتا چلا کہ وہ تو خود صاحبِ تصوف ہیں)۔ پھر ان کے حوالے سے کچھ لوگ اور آگئے، یوں یہ سلسلہ چل پڑا۔

جس بات سے میں ڈرتا تھا، وہی ہونی شروع ہوگئی، دفتر میں لوگوں کی آمد بڑھ گئی، جس سے میرے ضمیر پر بوجھ پڑنے لگا کہ مجھے تو تنخواہ ملتی ہے لیکن یہ کیا ہو رہا ہے؟ پھر میں نے لوگوں سے درخواست کی کہ دیکھیں! میرے دفتر کا حرج ہوتا ہے اور یہ بےایمانی ہے، مجھے اس کو پورا کرنے کے لیے رات گئے تک بیٹھنا پڑتا ہے، اگر آپ مہربانی فرمائیں تو اتوار والے دن میرےگھر پہ آجایا کریں، یوں دس بارہ لوگ گھر پر آنا شروع ہوگئے، وہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہوئی کہ پھر یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ قصہ یہ ہے۔

(سید سرفراز اے شاہ صاحب کے ساتھ نشست)

Recently Viewed Products

Kahe Faqeer | کہے فقیر

Returns

There are a few important things to keep in mind when returning a product you have purchased from Dervish Online Store:

Please ensure that the item you are returning is repacked with the original invoice/receipt.

We will only exchange any product(s), if the product(s) received has any kind of defect or if the wrong product has been delivered to you. Contact us by emailing us images of the defective product at help@dervishonline.com or calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm) within 24 hours from the date you received your order.

Please note that the product must be unused with the price tag attached. Once our team has reviewed the defective product, an exchange will be offered for the same amount.


Order Cancellation
You may cancel your order any time before the order is processed by calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm).

Please note that the order can not be canceled once the order is dispatched, which is usually within a few hours of you placing the order. The Return and Exchange Policy will apply once the product is shipped.

Dervish Online Store may cancel orders for any reason. Common reasons may include: The item is out of stock, pricing errors, previous undelivered orders to the customer or if we are not able to get in touch with the customer using the information given which placing the order.


Refund Policy
You reserve the right to demand replacement/refund for incorrect or damaged item(s). If you choose a replacement, we will deliver such item(s) free of charge. However, if you choose to claim a refund, we will offer you a refund method and will refund the amount in question within 3-5 days of receiving the damaged/ incorrect order back.

What are you looking for?

Your cart