’’ آج کی گرمی تو ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت جنید بغدادیؒ ٹھہر گئے اور نہایت پرجلال لہجے میں اپنے مرید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ تو نے اتنے دنوں کی صحبت میں صرف شکایت ہی کرنا سیکھا ہے؟‘‘ مرید اپنے پیرومرشد کی گفتگو کا مفہوم نہیں سمجھ سکا اور دوبارہ موسم کی سختیوں کی شکایت کرنے لگا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے جلال میں اضافہ ہوگیا۔’’ ا پنی دنیا کی طرف واپس لوٹ جا! تو ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘
مختصر یہ کہ اس مرید کو خانقاہ سے نکال دیاگیا۔ دوسرے خدمت گاروں نے ڈرتے ڈرتے سبب پوچھا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ موسم کیا ہے؟ دوسرے الفاظ میں حکم خداوندی ہے۔ ماہ ونجوم اپنی مرضی سے طلوع وغروب نہیں ہوتے، سورج میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے ارادے سے آگ برسانے لگے۔ جب کوئی بندہ سردی یا گرمی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی بہ رضا نہیں ہے۔ اس لئے ہم بھی ایسے شخص کو عزیز نہیں رکھتے اور وہ ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘
دلچسپ انداز تحریر رکھنے والے خان آصف نے یہ واقعہ اپنی کتاب ’’ اللہ کے سفیر‘‘ میں بیان کیاہے۔ یہ واقعہ حضرت جنید بغدادیؒ سے منسوب بے شمار واقعات میں سے ایک ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے انہی واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کیوں کہاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتنہ وفساد کی اس دنیا میں یہی اولیائے کرام انسانیت کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ ان بوریانشینوں نے اپنی پوری زندگی کو انتہائی ضروریات کے دائرے سے باہر نہیں جانے دیا حتیٰ کہ انھوں نے اپنی ضروریات پر بھی دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی۔
کیونکہ ان کی ساری دلچسپی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سمیٹنے میں تھی اور پھر انھوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہی سے لوگوں کے اذہان وقلوب کو بھر دیا۔ وہ اپنے آپ پر شکر کی ایسی کیفیت طاری کرتے کہ اللہ اس کے نتیجے میں ان پر اپنی نعمتوں کی برسات کرتا اور اللہ کی یہ بلند مرتبت ہستیاں ان نعمتوں کو مخلوق خدا میں بانٹ دیتے۔ اللہ کے ان دوستوں کی زندگی کامطالعہ کیاجائے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدلتی ہیں۔ خان آصف نے اپنے مخصوص انداز میں اللہ کے ہرسفیر کی داستان حیات کو ایک دلچسپ کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔
’’اللہ کے سفیر‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت رابعہ بصریؒ، حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ اور حضرت نظام الدین اولیاٰؒ کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ’’اللہ کے ولی‘‘ میں حضرت منصور حلاجؒ، حضرت سیدعلی ہجویریؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ، حضرت میاں میر لاہوریؒ، حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت سچل سرمستؒ کے تذکرے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ان محبوب بندوں کے یہ تذکرے انسانوں کو بدل کررکھ دیتے ہیں، ایسی روشنی فراہم کرتے ہیں جس کی آج دنیا بھر کے معاشروں کو ازحد ضرورت ہے۔
’’اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی‘‘… ان دونوں کتابوں میں سے ہر ایک سوا پانچ سو سے زائد صفحات پر محیط ہے، ہرایک کی قیمت 700روپے ہے۔ انھیں القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ ،چوک اردو بازار ،لاہور نے نہایت عمدگی سے شائع کیا ہے۔ ٹائیٹل انتہائی دیدہ زیب جبکہ طباعت غیرمعمولی حد تک شاندار۔ ان کتابوں کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ محض تین چاربرسوں میں ان کے سات، سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔