علامہ اقبالؒ کی شاعری کا کینوس نہ صرف دلکش اور بے حد موثر ہے،بلکہ اس میں کافی وسعت بھی پائی جاتی ہے، انہوں نے اپنی منظوم تصانیف میں کئی مقامات پر شعر و ادب، اخلاقیات کا اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ بھی کیا ہے، ان کی ایک بلند پایہ شعری تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘ میں ایران کی ایک نامور شاعرہ، ادیبہ اور علمی شخصیت قرۃ العین طاہرہ کا بھی دلچسپ اور فکر انگیز ذکر ہے، فارسی ادبیات سے گہری شناسائی رکھنے والوں کے لئے اس ذہین و فطین خاتون کا نام اجنبی نہیں، علامہ اقبالؒ نے جاوید نامہ میں اپنی خیالی سیر افلاک کے دوران میں اپنے عظیم المرتبت مرشدِ روحانی مولانا رومؒ کی معیت میں اس سے بھی ملاقات کی تھی، نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے طاہرہ کی فکر کے چند اہم پہلوؤں سے ہمیں روشناس کرایا ہے، میری رائے میں ایسی عظیم علمی شخصیت کا اجمالی تذکرہ قارئین کے لئے یقیناً حقیقت کشا ہوگا۔
جہاں تک قرۃ العین طاہرہ کے مختصر سوانح حیات کا تعلق ہے وہ انیسویں صدی کے نصفِ اول میں ایران کے ایک مشہور شہر قزویں میں تولّد ہوئی تھی، اس کا اصلی نام تو زریں تاج تھا مگر اپنے روحانی اور سیاسی رہنما مرزا محمد علی باب کے کہنے پر اس نے قرۃ العین طاہرہ کہلوانا زیادہ پسند کیا تھا، طاہرہ کاوالد ملا صالح قزوین کا باسی اور وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں کافی شہرت رکھتا تھا، اس نے اپنی اس ذہین بیٹی کو خود مذہبی علوم سے آشنا کیا۔ طاہرہ کا چچا اور سسر ملا محمد تقی ایک ممتاز مذہبی راہنما اور مجتہد تھا، جب طاہرہ قرآن، تفسیر، فقہ اور ادب سے بہرہ ور ہوچکی تو اس کی شادی ملا محمد تقی کے بیٹے ملا محمد سے کردی گئی، جب قرۃ العین نے محمد علی باب کے نظریات سے متاثر ہو کر اس کے مسلک کو اختیار کر لیا تو پھر اس کے گھر والوں نے طاہرہ کی مخالفت کی اور اسے باب کے افکار اور مذہبی عقائد کو چھوڑنے کی کوششیں کیں مگر وہ تمام بے سود ثابت ہوئیں، اس کے بعد اس کی خانگی زندگی برباد ہوتی گئی۔ اگرچہ طاہرہ کی مذہبی ماحول میں پرورش اور تربیت ہوئی تھی تاہم وہ اپنی طبعی آزاد خیالی اور انقلاب پسندی کی وجہ سے مذہبی پابندیوں کے خلاف ہو کر بابیت (BABISM) کی فریفتہ ہو گئی، بابی مذہب و مسلک کے بانی محمد علی باب کا پس منظر بھی مذہبی تھا۔اس نے عراق جا کر شیعہ عقائد و نظریات کی تعلیم حاصل کی تھی لیکن وہ بھی بعد میں ان پر قائم نہ رہ سکا۔ محمد علی باب نے یہ دعویٰ کردیا کہ وہ امام منتظر ،یعنی مہدی موعود کے لئے باب (دروازہ) کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے گذر کر ہی ان تک پہنچا جاسکتا ہے، حکومتِ وقت اور مذہبی علماء نے محمد علی باب اور اس کے پیروکاروں کو نہ صرف ہدفِ تنقید بنایا بلکہ باب کو گرفتار کرکے موت کی سزا بھی دی، یہ واقعہ ایران کے بادشاہ ناصر الدین قاچار کے عہد میں 1850ء کو پیش آیا۔ زریں تاج (قرۃ العین طاہرہ) کو بھی بادشاہ پر ایک حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، علماء نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر اس کے قتل پر اصرار کیا، 1852ء میں وہ اپنے مذہبی عقائد اور سیاسی سرگرمیوں کے باعث قتل کردی گئی۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ کے ایک باب ’’فلکِ مشتری‘‘ میں منصور حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ کی ارواح کو بہشت میں دیکھا اور ان کے بارے میں کہا:
پیشِ خود دیدم سہ روحِ پاکباز
آتش اندر سینہ شان گیتی گداز
در برِ شاں حلّہ ہائے لالہ گوں
چہرہ ہا رخشندہ از سوزِ دروں
در تب و تابے ز ہنگام الست
از شرابِ نغمہ ہائے خویش مست
(میں نے اپنے سامنے تین پاکباز روحوں کو دیکھا جن کے سینوں میں جہاں کو پگھلا دینے والی آگ (انقلابی جذبات و افکار) تھی، ان کے بدنوں پر سرخ لباس تھے اور ان کے چہرے باطنی سوز کی وجہ سے چمک رہے تھے۔ وہ الست کے وقت کی تب و تاب اور اپنے ہی نغموں کی شراب کی وجہ سے مست تھے) حلّاج اورغالب کے مختصر سے ذکر کے بعد علامہ اقبالؒ ہمیں قرۃ العین کے چند اشعارِ دلپذیر سے روشناس کراتے ہیں، وہ اس کی ایک مشہور غزل کے درج ذیل اشعار کے مطالعہ کی ہمیں دعوت دیتے ہیں، انہوں نے ’’نوائے طاہرہ‘‘ کے عنوان سے یہ اشعار پیش کئے ہیں:۔
گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہر، رو بہ رو
شرح دہم غمِ ترا، نکتہ بہ نکتہ، مُو بہ مُو
ازپئے دیدنِ رُخت ہمچو صبا اُفتادہ ام
خانہ بہ خانہ، در بدر، کوچہ بکُوچہ، کُو بہ کُو
می رود از فراقِ تو خونٍ دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جُو بہ جُو
مہر ترا دلِ حزیں بافتہ بر قماشِ جاں
رشتہ بہ رشتہ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پو بہ پو
در دلِ خویش طاہرہ! گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو
اے محبوب! اگر تیرے چہرے پر میری نظر پڑ جائے تو پھر میں تیرے فراق میں اپنے غم کی پوری طرح شرح کردوں اور کوئی نکتہ بال برابر بھی نہ چھوڑوں (تجھے ساری داستانِ غم بتا دوں)
میں تیرے رخ کو دیکھنے کی خاطر صبا کی طرح گھر گھر، در بدر اور گلی کوچوں میں آوارہ پھر رہی ہوں۔
تیرے ہجر میں میری دونوں آنکھوں سے میرے دل کا خون اس طرح بہہ رہا ہے جیسے دریائے دجلہ، سمندر، چشموں اور ندیوں سے پانی بہتا ہے، تیری محبت کو میرے غمگین دل نے اپنی جان کے کپڑے پر اس طرح بنا ہوا ہے جس طرح کپڑے کے دھاگے آپس میں پیوستہ ہوتے ہیں، تیری محبت میری جان سے مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہے۔
اے محبوب! طاہرہ نے اپنے دل کی خوب سیر کی مگر اس نے تیرے سوا اپنی کتابِ دل کے تمام صفحات، اس کی ہر ایک تہہ اور ہر ایک پردے میں کچھ اور نہ دیکھا (میرے دل میں صرف تو ہی جاگزیں ہے)
قرۃ العین کے مندرجہ بالا اشعار سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے محبوب سے کس قدر محبت تھی اور وہ کتنی انقلابی شخصیت کی مالک تھی، حکیم الامت اور شاعرِ انقلاب علامہ اقبالؒ خود انقلاب آفریں تصورات اور جذبات کے علمبردار تھے، اسلئے انہوں نے طاہرہ کی بلند ہمتی، جراتِ رندانہ، بے باکی، انقلاب پسندی اور اپنے مسلک سے اس کی بے انتہا وابستگی اور استواری کا ذکر کیا ہے، غالب نے اپنے عقائد و نظریات سے گہری وابستگی کو سراہتے ہوئے کہا تھا:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے