FREE SHIPPING | On order over Rs. 1500 within Pakistan

یارم | سمیرا احمد

In Stock Unavailable

sold in last hours

Regular price Rs.1,800.00 Rs.2,000.00 |  Save Rs.200.00 (10% off)

-6

Spent Rs. more for free shipping

You have got FREE SHIPPING

ESTIMATED DELIVERY BETWEEN and .

PEOPLE LOOKING FOR THIS PRODUCT

PRODUCT DETAILS

یارم

سمیرا احمد

سمیرا حمید ناول نگاری کی دنیا میں نئی نہیں ہیں آپ کے قلم سے کئی ناول نکل چکے ہیں جن میں محبت من محرم، یارم، خیالِ یار، بورشے، ام الیقین وغیرہ شامل ہیں۔ یارم سمیرا حمید صاحبہ کا تحریر کردہ ناول ہے جو ابتدائی طور پہ ڈائجسٹ کے لئے لکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کو کتابی شکل میں بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ مصنفہ کے لکھنے کا انداز اس قدر شاہانہ ہے کہ خواتین مصنفات کے مہینے کے لئے ہمیں محسوس ہوا کہ اس سلسلے کے لئے اس سے بہتر کوئی ناول نہیں ہو سکتا۔یارم سمیرا صاحبہ کا مقبول ترین ناول ہے جس نے آغاز سے ہی قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ناول کے ابتدائیہ میں مرکزی کردار کسی دیو مالائی کہانی کے کرداروں کی طرح پیش کئے گئے ہیں۔
ایک لڑکی ہے امرحہ
کشمیر کے سبزہ زار سی
پرستان کے گلاب سی
زمرد جڑے عطر دان سی
ایک لڑکا ہے عالیان
عرب کے سلطان سا
داستان کے جمال سا
آسمانی فرمان سا

ناول کے اہم کردار یوں ہیں؛
امرحہ: یہ ناول کی مرکزی کردار ہے۔ اس کا تعلق لاہور سے ہے۔ امرحہ کے گھر والے اسے منحوس سمجھتے ہیں۔ کسی بھی موقع پہ اس کی موجودگی بدشگون شمار کی جاتی ہے۔ امرحہ اکثر اپنے بارے میں کہتی ہے “میں منحوس ماری۔۔۔ میں منحوس ماری”۔
عالیان: یہ مرکزی مرد کردار ہے۔ اس کا تعلق مانچسٹر، انگلینڈ سے ہے۔ عالیان یونیورسٹی کا طالبعلم ہے جو اپنے دوستوں اور یونیورسٹی طلبأ میں پسندیدہ ہے۔اس کا پورا نام عالیان مارگریٹ ہے۔ وہ اپنی ماں کے نام سے پہچانا جانا چاہتا ہے۔
دادا: یہ امرحہ کے دادا ہیں۔ گھر میں واحد یہی ہیں جو امرحہ کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔ دادا کے ترغیب دینے پہ امرحہ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں وظیفے کے لئے اپلائی کرتی ہے اور بالآخر مانچسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
ویرا: یہ روسی طالبہ ہے جو امرحہ کی دوست ہے۔ ویرا اور امرحہ مانچسٹر میں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔
کارل: یہ مانچسٹر یونیورسٹی کا طالبعلم ہے جو بہت شرارتی ہے۔ یونیورسٹی کے اکثر طالبعلم اس کی شرارتوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ناول کی کہانی امرحہ کی کہانی ہے۔ وہ امرحہ جو اپنے خاندان میں منحوس مشہور تھی جس کا مستقبل غیر واضح تھا اور جو خود بھی کسی خاص صلاحیت کی حامل نہیں تھی۔امرحہ کی نحوست مصنفہ نے یوں بیان کی ہے؛
“تباہی اور بربادی تھی نا وہ۔۔۔ نیک شگونی کی دشمن، بدشگونی کی دوست کیونکہ عین اس کی پیدائش کے دن بڑے تایا چل بسے تھے۔۔۔ پھوپھی پھوپھا کا کار ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔۔ چھوٹی پھپھو کے گھر شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی اور سارے ساز و سامان کو نگل گئی۔۔۔ چچا کی بیٹی کی منگنی اس دن ہونا تھی، تایا کی وفات سے وہ ملتوی ہوگئی۔ بعد ازاں رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔۔ اور ماموں کے الیکٹرونکس کے اسٹور میں پورے چار لاکھ کی چوری ہو گئی۔ ماموں صدمے سے چار دن ہسپتال رہے۔ امرحہ سے بڑے علی کی چھت سے گر کر بائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، جس کی وجہ سے وہ پورے دو سال لنگڑا کر چلتا رہا۔۔۔۔ ساتھ کے گھر کی ملائکہ آپا بیوہ ہو گئیں۔ ان کے شوہر کا فرانس میں ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔۔۔ سامنے کے گھر والوں کی بہو کے مردہ بچے کی پیدائش ہوئی اور ۔۔۔ اور بھی بہت کچھ۔۔۔ فہرست کافی لمبی تھی اور دن بہ دن لمبی ہی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔مثلاً اگر کوئی کہتا۔
“بس اماں جی! اپنے دھیان میں تھی، پتا ہی نہیں چلا کب حاشر اپنا ہاتھ جلا بیٹھا۔۔۔”
دادی پوچھتیں کیا دن تھا۔۔۔
“منگل کا دن تھا۔۔۔ آج ہی کے دن۔۔۔ بلک بلک کر رویا میرا بیٹا۔۔۔ میں بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی”۔
“اچھا منگل۔۔۔ اور تاریخ کیا بنی۔۔۔”
“تاریخ یہی دو۔۔۔”
“اچھا۔۔۔ دو اور اوپر سے منگل۔۔۔ مدیحہ بیٹا! منگل کی دو کو ہمیں یہ وبال نصیب ہوا تھا۔۔۔ اس دنیا پر یہ امرحہ عذاب بن کر آئی تھی۔۔۔ ہمارے خاندان میں تو ہر تاریخ دو، ہر دن منگل۔۔۔ کیا کریں گناہوں کے عذاب بھی تو بھگتنے ہی پڑتے ہیں نا”۔
اگلی بار جناب حاشر کے ہاتھ جلنے کا قصہ بھی اس ” نجس جنم پتری” میں شامل کر دیا جاتا”۔

اپنے دادا کے اصرار پہ امرحہ بیرون ملک جا کے تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاتی ہے جس کا واحد مقصد اس کے موجودہ حالات سے چھٹکارا پانا تھا۔ لیکن امرحہ تعلیم میں اچھی نہیں تھی اس لئے اسکالرشپ حاصل کرنے میں ناکام ہی رہی۔ بہرحال کافی زیادہ کوشش کے بعد اسے ایک اسکالرشپ مل ہی گیا جو یونیورسٹی کے طلبأ نے اپنے جیب خرچ میں بچت کرکے شروع کیا ہوا تھا۔ اس طرح امرحہ لاہور سے مانچسٹر پہنچ گئی۔
مصنفہ کے قلم سے امرحہ کے کردار کا ایک رخ پیش ہےیہ واقعہ اس کے مانچسٹر پہنچنے کے پہلے دن کا ہے؛
“مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔ مجھے جانا ہے”۔ اور جاتے جاتے بھی وہ پھر کہہ گئی۔”برائے مہربانی کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگائیے گا”۔
لیکن وہ ایک ایک چیز کو ہاتھ لگاتی رہی۔۔۔ اسٹڈی ٹیبل پر رکھے نئی نئی اشکال والے پرفیومز کو اسپرے کرنے سے اس نے ابتدا کی۔۔۔ دراصل وہ صرف یہ دیکھ رہی تھی کہ وہ کس قدر اصلی ہیں۔۔۔۔ یعنی کہ یہ جوکہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کتنا بھی مہنگا اور ہائی برانڈ کا پرفیوم لے لیا جائے تو وہ اصل کی کاپی ہی ہوتا ہے اصل نہیں تو یہ کتنا سچ ہے۔۔۔ سب کے پرفیومز بےدریغ اسپرے کرتے اسے کچھ کچھ حقیقی سچ کا اندازہ ہو رہا تھا کہ پاکستان میں وہ اصل کی کاپی ہی خریدتی رہی ہے۔۔۔ پورا فلیٹ معطر ہو گیا اور وہ تھک گئی تو اس نے پرفیومز کی جان چھوڑی اورپھر وہیں قریب ہی کچھ میک اپ کا سامان رکھا تھا وہ اسے دیکھنے لگی۔۔۔ البتہ کتابوں پر اس نے صرف ایک نظر ڈالی کیونکہ ان کے ٹائیٹل ہی ایسے ایسے تھے جیسے ساری مصری تاریخ وہاں نت نئے رنگوں سے سجا کر رکھ دی گئی ہو اور عہدِ فرعون سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی۔۔۔
پھر وہ واش روم گئی۔۔۔ ایک ایک آئٹم کو چیک کیا، فیس واش، باڈی واش، لوشنز کو دیکھا۔۔۔ حتیٰ کہ باتھ ٹب کے کنارے رکھی چھوٹی چھوٹی بطخوں کو بھی۔۔۔ پھر وہ کچن میں آئی۔۔۔ ایک ایک کیبنٹ کو کھول کر دیکھا۔۔۔ فوڈ آئٹمز کو سونگھا بھی۔۔۔ دوسرا کمرا لاک تھا۔۔۔ لاؤنج میں رکھا ٹی وی اس نے آن کیا اور پہلے چینل چیک کرتی رہی پھر ایک میوزک چینل لگا کر کچن میں آ کر نوڈلز بنانے لگی۔۔۔ دو عدد نوڈلز کے پیکٹ بنائے۔۔۔ بڑے پیالے نما باؤل میں ڈالے ۔۔۔ اور ایڈورڈ مایا کو سنتے سنتے کھا گئی۔

کسی بھی مالی سپورٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے امرحہ کو یونیورسٹی کے پہلے دن ہی نوکری کی تلاش کرنی پڑی اور اس طرح وہ فوراً ہی اپنے نئے ماحول میں سیٹ اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئی۔ اسے اپنی رہائش کا انتظام بھی کرنا تھا اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرنی تھی۔ خوش قسمتی سے اسے لیڈی مہر کے گھر میں جگہ مل گئی جن کے شوہر کا سالوں پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ لیڈی مہر نے یتیم خانے سے بچے گود لے کر پالے تھے۔ یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ایک پرینک کے دوران امرحہ کی عالیان سے ملاقات ہوتی ہے، جو فوراً ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔
“عشق جو اسرار اعظم ہے، اس نے اپنے جادوئی دریچے سعادت مندی سے عالیان کے لئے کھول دئے اور اپنی دھرتی پر اس کی آمد کی چاپ کو احترام سے سلام پیش کیا۔۔۔ پھر پہلے راز کی رونمائی کے لئے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی سماعتوں کو اپنی گویائی کے قریب کیا۔۔۔ “

عالیان ان بچوں میں سے تھا جو لیڈی مہر نے یتیم خانے سے گود لئے تھے اس کے والدین کون تھے، اس کا کچھ علم نہیں تھا۔ لیڈی مہر کے گھر ویرا نامی ایک روسی لڑکی رہنے آتی ہے جو امرحہ کی یونیورسٹی میں ہی پڑھتی تھی۔ ویرا اور امرحہ میں اچھی دوستی ہو جاتی ہے اور ویرا ہر موقع پہ امرحہ کا ساتھ دیتی ہے۔
تم روس میں نہیں ہو ویرا، اپنے ملک کی اور بات ہوتی ہے”۔
“اپنی دنیا میں تو ہوں نا امرحہ، اور بات اپنے ملک یا دوسرے ملک کی نہیں، بات تو زیادتی کو برداشت کرنے کی ہے جو کبھی بھی کہیں بھی برداشت نہیں کی جانی چاہئے۔ اچھا چلو سنو ایک بار سکول گراؤنڈ میں میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے ہراساں کیا تھا۔ میں دس سال کی تھی اس وقت۔۔۔ وہ لوفر اور ایک گندا لڑکا تھا۔ اگلے دن خوف سے میں سکول نہیں گئی۔ ۔میرے پاپا کو میرے سکول نہ جانے کی وجہ معلوم ہوئی تو انہوں نے مجھے گھر کے باہر پہاڑ کی طرح جمی برف میں گردن تک دبا دیا۔۔۔ میرے بدن پر ایک بھی گرم کپڑا نہیں تھا۔ میں چیخنے اور چلانے لگی، وہ خاموشی سے میرے پاس بیٹھے رہے۔ جب میں بالکل مرنے کے قریب ہو گئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ برف کے اس ڈھیر میں دبے رہنا بہادری ہے یا سکول سے چھٹی کر لینا۔ وہ بھی نام نہاد خوف اور بزدلی کی بنا پر۔۔۔ وہ مجھ سے بار بار یہی ایک سوال پوچھتے رہے۔۔۔ میرے ہونٹ نیلے پڑ گئے۔۔۔ اور میری جان نکلنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر تم نے باقی ماندہ زندگی بھی ایسے بزدل بن کر گزارنی ہے تو خود کو اسی برف میں دفن رہنے دو۔۔۔ مر جاؤ اسی ڈھیر میں۔۔۔۔ بزدلوں کو مر ہی جانا چاہئے”۔
امرحہ کی یونیورسٹی کا دورانیہ دو سال کا تھا جس کے دوران اس کی محبت اور دوستی جیسے جذبوں سے ملاقات ہوئی۔
لاہور میں سب نہیں ہے امرحہ! سب کچھ تو مانچسٹر میں ہے”۔ مسکراہٹوں میں سب سے پیاری مسکراہٹ سجا کر عالیان نے کہا۔
“ہاں تم تو یہی کہو گے”۔ سندری امرحہ نے بروں میں سب سے بری طرح منہ بنا کر کہا۔
“میں۔۔۔ہاں میں ہی تو یہ کہوں گا۔۔۔ لاہور خالی ہو چکا ہے۔۔۔ اس کے پاس سب نہیں ہے۔۔۔ تم تو یہاں بیٹھی ہو۔۔۔ اس کے پاس سب کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ اس کا سب تو مانچسٹر میں آ چکا ہے”۔
کھڑکی کے باہر گرتے برف کے گالوں نے اتنی پیاری بات پر تالیاں بجائیں۔۔۔ وہ سفید سے نیلے، پیلے، ہرے ہو گئے۔۔۔ اور امرحہ خاموش ہو گئی۔

ناول کی تمام کہانی یونیورسٹی لائف کے واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ یونیورسٹی کے پہلے دن اپنی کلاس، ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈنا، سینئرز کے ہاتھوں فول بننا، اسائنمنٹس، امتحانات، لائبریری، گیمز، ہاسٹل لائف اور یونیورسٹی کلاس کے بعد جاب جیسی چیزیں جو بیرون ملک پڑھنے والے کسی بھی طالبعلم کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، سب امرحہ کی زندگی کا حصہ بن گئیں۔ یہ ناول اپنے اندر ایک نوسٹیلجیا رکھتا ہے، یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے والے اور خصوصاً بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے امرحہ کی کہانی پڑھتے ہوئے اپنی یونیورسٹی لائف کو ہی جیسے اپنی آنکھوں کے سامنے گزرتا دیکھتے ہیں اور اپنے تعلیمی دور کو ایک بار پھر سے محسوس کرتے ہیں۔ مصنفہ نے بیرون ملک کی یونیورسٹی لائف کی بہترین عکاسی کی ہے۔ ناول کی تفصیلات، کردار نگاری، منظر کشی متاثر کن اور بھر پور ہیں۔ مصنفہ کے لکھنے کا انداز شاہانہ ہے ایسے جیسے وہ ایک قدیم داستان گو ہیں، جو ساتھ ہی مؤرخ بھی ہے، جسے زمینی اور افلاکی رازوں تک رسائی حاصل ہے اور جس کا انداز شاعرانہ ہے۔ ناول کا ایک جملہ موجودہ دور کی کہانی کا ہے تو ساتھ ہی اگلا جملہ کسی پرانی داستان کا حوالہ لئے ہوئے ہوتا ہے اور تیسرا جملہ افلاکی اور الہامی افعال کا احوال ہے۔
عالیان اٹھا اور چل کر اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
“مذاق کچھ زیادہ ہی ہو گیا۔۔۔ ان کی غلطی ہے۔ انہیں معاف کر دو”۔ اس نے بہت دوستانہ انداز میں کہا۔
وہ بدستور ہچکیاں لیتی رہی۔
“پلیز۔۔۔ انہیں معاف کردو۔۔۔ پلیز۔۔۔” عالیان ڈر تو رہا تھا اندر ہی اندر کہ وہ اس کی گردن ہی نہ دبوچ لے پھر بھی وہ کہے بنا رہ نہیں سکا۔ اس کا رونا ایسا تھا کہ اسے اپنے ایک پیارے کی سسکیاں یاد آنے لگیں تھیں۔
“ایسے نہ رو پلیز۔۔۔ ہم سب کو تکلیف ہو رہی ہے”۔ اس نے ہم کہا “مجھے” نہیں۔ کیونکہ وہ نہیں کہہ سکا۔
اور امرحہ نے سالوں تڑپ تڑپ کر، چھپ چھپ کر روتی رہی آنکھوں کو اٹھا کر عالیان کو دیکھا۔۔۔ اور عالیان وہیں کا وہیں رہ گیا۔۔۔
اگلے جملوں میں ایک دم کہانی ایک دوسرے لیول پہ چلی جاتی ہے کسی الہامی قصہ خواں کے پاس ۔ مصنفہ الہامی قصہ گو کے طور پہ خود کا ذکر کرتی ہیں۔
یہ کیا ہوا؟ ششدر وقت نے خاموشی چاک کی اور سنہری قلم نے بلوریں دوات میں ڈوب کر حرف اول “محبت” کی “م” پر نوک رکھ دی۔
ہاں یہیں سے داستان یارم لکھنے کی ابتدأ میں نے کر دی۔۔۔

پورے ناول میں جا بجا ایسے جملے ہیں اور اور مصنفہ زمینی کہانی بیان کرتے کرتے قدیم الہامی قصہ گو کا انداز اپنا لیتی ہیں۔ ان کا انداز شاعرانہ ہے نیز الفاظ خوبصورتی اور دلکشی کا مجسمہ ہیں۔ کہانی کئی لیولز پہ بیان کی گئی ہے۔ایک جملہ اگر امرحہ اور عالیان کی کہانی کا ہے تو اگلا ہی جملہ دنیا کے کسی بھی علاقے کی کسی متعلقہ روایت کا بیان ہے جس سے اگر آپ واقف ہیں تو ناول کا لطف دو آتشہ ہو جائے گا، لیکن اگر آپ کی واقفیت نہیں ہے تب بھی یہ بیان کی خوبصورتی کو بڑھانے میں مددگار ہے۔ آسمانی مظاہر کی نظر سے قاری اس کہانی کے برڈ آئی ویو سے محظوظ ہوتے ہیں اور اس ناول کی خوبصورتی کو بھر پور انداز سے محسوس کرتے ہیں۔ ناول کا شاہانہ پن قاری کے احساسات پہ چھا جاتا ہے، وہ بلندی اور گہرائی کے ان مقامات تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ اسی احساس کو مصنفہ نے لوحِ کلام میں جہانِ الہام سے تشبیہہ دی ہے جہاں سے انہوں نے محسوسات، خیالات اور الفاظ کی مدد سے یہ کہانی اکھٹی کی ہے۔ یہ کہانی مقدس ہے، اس کا احترام واجب ہے کیونکہ یہ مصنفہ پہ نازل ہوئی ہے۔ مصنفہ کی ایک دو اور کتابوں کے مطالعے کا بھی ہمیں موقع ملا ہے لیکن جو الہامی احساس یارم میں ہے وہ ہمیں کسی اور کہانی میں نہیں ملا۔ یہ اپنی نوعیت کی بالکل منفرد تخلیق ہے جو کئی لیولز پہ قاری کی تسکین کرتی ہے۔ یارم کے احساس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔لوحِ کلام کے تحت مصنفہ اپنے اس ناول کے بارے میں کہتی ہیں؛
“الہام سوچ کے آغاز کا دروازہ ہے اور داستان اس دروازے کے پار کا جہاں”
میں نے الہام کی ترتیب اور کرداروں کی بنت کی محرابوں کو اٹھاتے کسی خطاط کی طرح تصورات کو ان پر نقشین کرتے “جہانِ الہام” کی وسعت کے درمیان خود کو کھڑے پایا، جس کے اطراف کو مجھے داستانِ یارم میں سمونا تھا۔
اور بحکم خدا، میں نے خوش رنگ، ہر رنگ کے پرندوں کو اڑایا اور ان کی پروازوں کے سنگ خود کو پایا۔ محسوسات کی پرتوں کو پوروں سے چھوا، خیالات کی خوشبوؤں کو ان کے مسکن سے نکالا، وقت کے تھال پر قسمت کے سکوں کی کھنک سنی اور زندگی کے آب نیل کی گہرائیوں سے کلام سمیٹا اور لفظوں کو بصورت “یارم” مجسم کرتے احترام سے قلم بند کیا”۔

یارم کی کہانی مجسم محبت اورمجسم دوستی ہے۔ دوستی اور محبت کا تھیم پورے ناول پہ حاوی ہے۔ تمام کردار اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور مثبتیت ہر کردار کا خاصہ ہے۔ ۔ ناول کی کہانی مانچسٹر یونیورسٹی کے تناظر میں لکھی گئی ہے جہاں دنیا بھر کے ممالک طلبا حصولِ علم کے لئے آئے ہیں۔ جن کی رنگ، نسل، مذہب، زبان، رہن سہن سب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ اس کے باوجود ان کے درمیان کڑواہٹ نہیں ہے، رشتوں میں تلخی اور تعلقات میں دشمنی نہیں ہے۔ پورے ماحول پہ ہی دوستی اور محبت کا رنگ ہے۔ مقابلہ اور مسابقت بھی دوستی کی چھتری تلے ہے ۔ مرکزی کرداروں کی اپنی اہمیت مسلم، لیکن ویرا اور کارل جیسے دوست بھی خاص ہیں۔ ویرا روس جیسے ٹھنڈے ملک سے تعلق رکھتی تھی لیکن دوستی میں گرم جوش تھی، دوستی نبھانے کے آداب سے واقف تھی، زندگی خوشیوں سے جینے کی قائل تھی، یہاں تک کہ محبت میں ناکامی بھی اس کے اندر کی اچھائی کو ختم نہیں کر سکی۔ اسے دل صاف رکھنا آتا تھا۔ کارل گرچہ یونیورسٹی میں شیطان کے متبادل کے طور پہ جانا جاتا تھا لیکن اپنے دوست کے وہ ہمیشہ ساتھ تھا۔ کارل اور ویرا ایسے دوست تھے کہ ہر انسان یہ خواہش کرے کہ کاش اس کے بھی ایسے ہی دوست ہوں۔ یہ مصنفہ کی ذہنی صلاحیت اور کامیابی ہے کہ انہوں نے “یارم” کو اپنا موضوع بنایا تو پوری تخلیق میں محبت اور دوستی کے علاوہ کسی اور جذبے کا عکس موجود نہیں۔ یہ بلاشبہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی کامیابی اور مکمل موضوع فہمی کی نشاندہی ہے۔

سمیرا حمید کے لکھنے کا انداز ان کی ہم عصر ناول نگاروں سے مختلف ہے۔ ان کے ہاں نمرا احمد کی طرح نہ کرداروں کی بہتات ہےاور نہ ہی ڈرامائی انداز بلکہ ٹھہراؤ کی سی کیفیت ہے ۔ ان کے کردارعمیرا احمد کے کرداروں کی طرح اچھائی اور برائی کی انتہاؤں پہ نہیں بلکہ عام سے انسان ہیں جو قاری کے ساتھ خود ہی تعلق بنا لیتے ہیں۔ ناول کی کہانی میں بڑے بڑے پیچ و خم نہیں ہیں۔ یہ واقعات در واقعات نہیں بلکہ کرداروں کے تعارف کی صورت میں آگے بڑھتی ہے۔ ناول کے ہر واقعے کا احساس مصنفہ نے گہرائی میں اتر کے تفصیلی بیان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کہانی گرچہ سست رفتار ہو جاتی ہے لیکن قاری خود کو کرداروں کی روح میں اترا ہوا پاتا ہے۔ ناول کے مطالعے کے دوران ہمیں فیودور دوستوفسکی کا ناول ذلتوں کے مارے لوگ یاد آنے لگاجس کی خاص بات اس کی سادگی ہے جو قاری کے دل پہ گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہی سادگی اور گہرے اثر والی خاصیت ہمیں یارم میں بھی ملی جس کی بظاہر ایک سادہ سی کہانی میں احساسات کا اتنا موثر بیان ہے جو دل پہ گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ فیودور دوستوفسکی کے ناول سے ایک اقتباس یہاں پیش ہے؛
میں نے ایک ہی نشست میں سارا ناول پڑھ کر سنا دیا۔ چائے پینے کے فوراً بعد شروع کیا تھا، رات کے دو بجے تک جاری رہا۔ بڑے میاں نے اول تو ناک بھوں چڑھائی۔ انہیں گمان تھا کہ کوئی بڑی شاندار چیز ہوگی، کوئی ایسی بات جسے وہ خود بھی سمجھ نہ پائیں، لیکن ہو بہت اعلیٰ ارفع۔ اور اس کے بجائے سننے کو کیا ملا۔۔۔ نہایت روزمرہ قدم کی سادہ چیزیں، یعنی ایسی جو خود انہی کو زندگی میں پیش آتی تھیں۔ یہ بھی نہ ہوتا، کم از کم اتنا تو ہوتا کہ ناول کا ہیرو ہی کوئی بڑا آدمی یا دلچسپ شخصیت کا مالک ہوتا یا تاریخی شخصیت کا آدمی، جیسے روسلا ولیف یا یوری میلو سلافسکی۔ مگر وہ بھی نہیں۔ اس کے بجائے جس ہیرو کا ذکر تھا اسے ایک معمولی دبا کچلا بلکہ سادہ لوح کلرک بتایا گیا جس کی وردی کے بٹن تک غائب تھے۔ اور پھر یہ ساری باتیں اس قدر معمولی، روزمرہ کی زبان میں لکھی ہوئی تھیں جیسی ہم خود بولتے رہتے ہیں۔ عجیب بات! بڑی بی نے نکولائی سرگیئچ کے چہرے کو حیران حیران نظروں سے دیکھا اور ایسے منہ بنایا جیسے روٹھ گئی ہوں۔۔۔ “کیا واقعی یہ خرافات اس قابل تھی کہ اسے چھاپا جاتا اور سنا جاتا، اور اوپر سے اس کام کا روپیہ بھی ملتا ہے۔” یہ جملہ گویا ان کے چہرے پہ لکھا ہوا تھا۔ نتاشا پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ وہ ایسی منہمک تھی سننے میں کہ میرے چہرے سے اس کی نظر نہ ہٹتی تھی اور میرے ہونٹوں کی حرکت دیکھ رہی تھی کہ کیسے میں لفظوں کو ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ خود بھی اپنے نازک لبوں کو حرکت دیتی جاتی تھی۔ کیا سمجھتے ہیں آپ، کیا ہوا؟ ابھی میں ناول کا آدھا حصہ بھی ختم نہ کر پایا تھا کہ ان تینوں کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔ آننا اندریئو سچ مچ رو رہی تھیں اور انہیں میرے ہیرو پہ رہ رہ کر ترس آ رہا تھااور ان کے بار بار کے ہائے وائے کرکے چونکنے سے میں نے یہ اندازہ کیا کہ وہ حد درجہ سادگی سے بےقرار ہیں کہ میرے ہیرو کی مصیبت میں کسی طرح کام آئیں۔
یعنی جس طرح دوستوفیسکی کی کہانی نے اس کے قارئین کو اتنا متاثر کیا کہ وہ آدھی کتاب کے بعد ہی آبدیدہ ہو گئے اور کرداروں کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے لگے ویسے ہی یارم کے کرداروں نے اپنا تعلق پڑھنے والوں کے ایسا بنایا کہ ان کے احساسات قاری کی آنکھوں کو اشک بار کر گئے ۔ یہ کردار بتاتے ہیں کہ محبت کی کہانیاں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ کرداروں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کہانیاں ایک سی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے ایک سے احساسات ہوتے ہیں، ایک سے خوف ہوتے ہیں اور ایک سی امیدیں ہوتی ہیں۔ناول کے مطالعے کے دوران قاری محبت کی گرمی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے اور محبت جیسے جذبے کی سچائی پہ اس کا یقین پختہ ہو جاتا ہے۔
“اگر میں برف ہوتی تو تمہارے قدموں پر گرتی”۔
“تم برف ہوتیں تو میں بھی برف ہوتا۔۔۔ مجھے وہی ہونا ہے جو تمہیں ہونا ہے امرحہ”۔

سمیرا حمید ناول نگاری کی دنیا میں نئی نہیں ہیں آپ کے قلم سے کئی ناول نکل چکے ہیں جن میں محبت من محرم، یارم، خیالِ یار، بورشے، ام الیقین وغیرہ شامل ہیں۔ یارم سمیرا حمید صاحبہ کا تحریر کردہ ناول ہے جو ابتدائی طور پہ ڈائجسٹ کے لئے لکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کو کتابی شکل میں بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ یارم کا مطالعہ ہم نے کئی سال قبل کیا تھا لیکن ابھی تک یہ کتابستان کا حصہ نہیں بن سکا تھا، مصنفہ کے لکھنے کا انداز اس قدر شاہانہ ہے کہ خواتین مصنفات کے مہینے کے لئے ہمیں محسوس ہوا کہ اس سلسلے کے لئے اس سے بہتر کوئی ناول نہیں ہو سکتا۔یارم سمیرا صاحبہ کا مقبول ترین ناول ہے جس نے آغاز سے ہی قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ناول کے ابتدائیہ میں مرکزی کردار کسی دیو مالائی کہانی کے کرداروں کی طرح پیش کئے گئے ہیں۔
ایک لڑکی ہے امرحہ
کشمیر کے سبزہ زار سی
پرستان کے گلاب سی
زمرد جڑے عطر دان سی
ایک لڑکا ہے عالیان
عرب کے سلطان سا
داستان کے جمال سا
آسمانی فرمان سا

ناول کے اہم کردار یوں ہیں؛
امرحہ: یہ ناول کی مرکزی کردار ہے۔ اس کا تعلق لاہور سے ہے۔ امرحہ کے گھر والے اسے منحوس سمجھتے ہیں۔ کسی بھی موقع پہ اس کی موجودگی بدشگون شمار کی جاتی ہے۔ امرحہ اکثر اپنے بارے میں کہتی ہے “میں منحوس ماری۔۔۔ میں منحوس ماری”۔
عالیان: یہ مرکزی مرد کردار ہے۔ اس کا تعلق مانچسٹر، انگلینڈ سے ہے۔ عالیان یونیورسٹی کا طالبعلم ہے جو اپنے دوستوں اور یونیورسٹی طلبأ میں پسندیدہ ہے۔اس کا پورا نام عالیان مارگریٹ ہے۔ وہ اپنی ماں کے نام سے پہچانا جانا چاہتا ہے۔
دادا: یہ امرحہ کے دادا ہیں۔ گھر میں واحد یہی ہیں جو امرحہ کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔ دادا کے ترغیب دینے پہ امرحہ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں وظیفے کے لئے اپلائی کرتی ہے اور بالآخر مانچسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
ویرا: یہ روسی طالبہ ہے جو امرحہ کی دوست ہے۔ ویرا اور امرحہ مانچسٹر میں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں۔
کارل: یہ مانچسٹر یونیورسٹی کا طالبعلم ہے جو بہت شرارتی ہے۔ یونیورسٹی کے اکثر طالبعلم اس کی شرارتوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ناول کی کہانی امرحہ کی کہانی ہے۔ وہ امرحہ جو اپنے خاندان میں منحوس مشہور تھی جس کا مستقبل غیر واضح تھا اور جو خود بھی کسی خاص صلاحیت کی حامل نہیں تھی۔امرحہ کی نحوست مصنفہ نے یوں بیان کی ہے؛
“تباہی اور بربادی تھی نا وہ۔۔۔ نیک شگونی کی دشمن، بدشگونی کی دوست کیونکہ عین اس کی پیدائش کے دن بڑے تایا چل بسے تھے۔۔۔ پھوپھی پھوپھا کا کار ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔۔ چھوٹی پھپھو کے گھر شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی اور سارے ساز و سامان کو نگل گئی۔۔۔ چچا کی بیٹی کی منگنی اس دن ہونا تھی، تایا کی وفات سے وہ ملتوی ہوگئی۔ بعد ازاں رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔۔ اور ماموں کے الیکٹرونکس کے اسٹور میں پورے چار لاکھ کی چوری ہو گئی۔ ماموں صدمے سے چار دن ہسپتال رہے۔ امرحہ سے بڑے علی کی چھت سے گر کر بائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی، جس کی وجہ سے وہ پورے دو سال لنگڑا کر چلتا رہا۔۔۔۔ ساتھ کے گھر کی ملائکہ آپا بیوہ ہو گئیں۔ ان کے شوہر کا فرانس میں ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔۔۔ سامنے کے گھر والوں کی بہو کے مردہ بچے کی پیدائش ہوئی اور ۔۔۔ اور بھی بہت کچھ۔۔۔ فہرست کافی لمبی تھی اور دن بہ دن لمبی ہی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔مثلاً اگر کوئی کہتا۔
“بس اماں جی! اپنے دھیان میں تھی، پتا ہی نہیں چلا کب حاشر اپنا ہاتھ جلا بیٹھا۔۔۔”
دادی پوچھتیں کیا دن تھا۔۔۔
“منگل کا دن تھا۔۔۔ آج ہی کے دن۔۔۔ بلک بلک کر رویا میرا بیٹا۔۔۔ میں بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی”۔
“اچھا منگل۔۔۔ اور تاریخ کیا بنی۔۔۔”
“تاریخ یہی دو۔۔۔”
“اچھا۔۔۔ دو اور اوپر سے منگل۔۔۔ مدیحہ بیٹا! منگل کی دو کو ہمیں یہ وبال نصیب ہوا تھا۔۔۔ اس دنیا پر یہ امرحہ عذاب بن کر آئی تھی۔۔۔ ہمارے خاندان میں تو ہر تاریخ دو، ہر دن منگل۔۔۔ کیا کریں گناہوں کے عذاب بھی تو بھگتنے ہی پڑتے ہیں نا”۔
اگلی بار جناب حاشر کے ہاتھ جلنے کا قصہ بھی اس ” نجس جنم پتری” میں شامل کر دیا جاتا”۔

اپنے دادا کے اصرار پہ امرحہ بیرون ملک جا کے تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاتی ہے جس کا واحد مقصد اس کے موجودہ حالات سے چھٹکارا پانا تھا۔ لیکن امرحہ تعلیم میں اچھی نہیں تھی اس لئے اسکالرشپ حاصل کرنے میں ناکام ہی رہی۔ بہرحال کافی زیادہ کوشش کے بعد اسے ایک اسکالرشپ مل ہی گیا جو یونیورسٹی کے طلبأ نے اپنے جیب خرچ میں بچت کرکے شروع کیا ہوا تھا۔ اس طرح امرحہ لاہور سے مانچسٹر پہنچ گئی۔
مصنفہ کے قلم سے امرحہ کے کردار کا ایک رخ پیش ہےیہ واقعہ اس کے مانچسٹر پہنچنے کے پہلے دن کا ہے؛
“مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔ مجھے جانا ہے”۔ اور جاتے جاتے بھی وہ پھر کہہ گئی۔”برائے مہربانی کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگائیے گا”۔
لیکن وہ ایک ایک چیز کو ہاتھ لگاتی رہی۔۔۔ اسٹڈی ٹیبل پر رکھے نئی نئی اشکال والے پرفیومز کو اسپرے کرنے سے اس نے ابتدا کی۔۔۔ دراصل وہ صرف یہ دیکھ رہی تھی کہ وہ کس قدر اصلی ہیں۔۔۔۔ یعنی کہ یہ جوکہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کتنا بھی مہنگا اور ہائی برانڈ کا پرفیوم لے لیا جائے تو وہ اصل کی کاپی ہی ہوتا ہے اصل نہیں تو یہ کتنا سچ ہے۔۔۔ سب کے پرفیومز بےدریغ اسپرے کرتے اسے کچھ کچھ حقیقی سچ کا اندازہ ہو رہا تھا کہ پاکستان میں وہ اصل کی کاپی ہی خریدتی رہی ہے۔۔۔ پورا فلیٹ معطر ہو گیا اور وہ تھک گئی تو اس نے پرفیومز کی جان چھوڑی اورپھر وہیں قریب ہی کچھ میک اپ کا سامان رکھا تھا وہ اسے دیکھنے لگی۔۔۔ البتہ کتابوں پر اس نے صرف ایک نظر ڈالی کیونکہ ان کے ٹائیٹل ہی ایسے ایسے تھے جیسے ساری مصری تاریخ وہاں نت نئے رنگوں سے سجا کر رکھ دی گئی ہو اور عہدِ فرعون سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی۔۔۔
پھر وہ واش روم گئی۔۔۔ ایک ایک آئٹم کو چیک کیا، فیس واش، باڈی واش، لوشنز کو دیکھا۔۔۔ حتیٰ کہ باتھ ٹب کے کنارے رکھی چھوٹی چھوٹی بطخوں کو بھی۔۔۔ پھر وہ کچن میں آئی۔۔۔ ایک ایک کیبنٹ کو کھول کر دیکھا۔۔۔ فوڈ آئٹمز کو سونگھا بھی۔۔۔ دوسرا کمرا لاک تھا۔۔۔ لاؤنج میں رکھا ٹی وی اس نے آن کیا اور پہلے چینل چیک کرتی رہی پھر ایک میوزک چینل لگا کر کچن میں آ کر نوڈلز بنانے لگی۔۔۔ دو عدد نوڈلز کے پیکٹ بنائے۔۔۔ بڑے پیالے نما باؤل میں ڈالے ۔۔۔ اور ایڈورڈ مایا کو سنتے سنتے کھا گئی۔

کسی بھی مالی سپورٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے امرحہ کو یونیورسٹی کے پہلے دن ہی نوکری کی تلاش کرنی پڑی اور اس طرح وہ فوراً ہی اپنے نئے ماحول میں سیٹ اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئی۔ اسے اپنی رہائش کا انتظام بھی کرنا تھا اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرنی تھی۔ خوش قسمتی سے اسے لیڈی مہر کے گھر میں جگہ مل گئی جن کے شوہر کا سالوں پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ لیڈی مہر نے یتیم خانے سے بچے گود لے کر پالے تھے۔ یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ایک پرینک کے دوران امرحہ کی عالیان سے ملاقات ہوتی ہے، جو فوراً ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔
“عشق جو اسرار اعظم ہے، اس نے اپنے جادوئی دریچے سعادت مندی سے عالیان کے لئے کھول دئے اور اپنی دھرتی پر اس کی آمد کی چاپ کو احترام سے سلام پیش کیا۔۔۔ پھر پہلے راز کی رونمائی کے لئے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی سماعتوں کو اپنی گویائی کے قریب کیا۔۔۔ “

عالیان ان بچوں میں سے تھا جو لیڈی مہر نے یتیم خانے سے گود لئے تھے اس کے والدین کون تھے، اس کا کچھ علم نہیں تھا۔ لیڈی مہر کے گھر ویرا نامی ایک روسی لڑکی رہنے آتی ہے جو امرحہ کی یونیورسٹی میں ہی پڑھتی تھی۔ ویرا اور امرحہ میں اچھی دوستی ہو جاتی ہے اور ویرا ہر موقع پہ امرحہ کا ساتھ دیتی ہے۔
تم روس میں نہیں ہو ویرا، اپنے ملک کی اور بات ہوتی ہے”۔
“اپنی دنیا میں تو ہوں نا امرحہ، اور بات اپنے ملک یا دوسرے ملک کی نہیں، بات تو زیادتی کو برداشت کرنے کی ہے جو کبھی بھی کہیں بھی برداشت نہیں کی جانی چاہئے۔ اچھا چلو سنو ایک بار سکول گراؤنڈ میں میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے ہراساں کیا تھا۔ میں دس سال کی تھی اس وقت۔۔۔ وہ لوفر اور ایک گندا لڑکا تھا۔ اگلے دن خوف سے میں سکول نہیں گئی۔ ۔میرے پاپا کو میرے سکول نہ جانے کی وجہ معلوم ہوئی تو انہوں نے مجھے گھر کے باہر پہاڑ کی طرح جمی برف میں گردن تک دبا دیا۔۔۔ میرے بدن پر ایک بھی گرم کپڑا نہیں تھا۔ میں چیخنے اور چلانے لگی، وہ خاموشی سے میرے پاس بیٹھے رہے۔ جب میں بالکل مرنے کے قریب ہو گئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ برف کے اس ڈھیر میں دبے رہنا بہادری ہے یا سکول سے چھٹی کر لینا۔ وہ بھی نام نہاد خوف اور بزدلی کی بنا پر۔۔۔ وہ مجھ سے بار بار یہی ایک سوال پوچھتے رہے۔۔۔ میرے ہونٹ نیلے پڑ گئے۔۔۔ اور میری جان نکلنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر تم نے باقی ماندہ زندگی بھی ایسے بزدل بن کر گزارنی ہے تو خود کو اسی برف میں دفن رہنے دو۔۔۔ مر جاؤ اسی ڈھیر میں۔۔۔۔ بزدلوں کو مر ہی جانا چاہئے”۔
امرحہ کی یونیورسٹی کا دورانیہ دو سال کا تھا جس کے دوران اس کی محبت اور دوستی جیسے جذبوں سے ملاقات ہوئی۔
لاہور میں سب نہیں ہے امرحہ! سب کچھ تو مانچسٹر میں ہے”۔ مسکراہٹوں میں سب سے پیاری مسکراہٹ سجا کر عالیان نے کہا۔
“ہاں تم تو یہی کہو گے”۔ سندری امرحہ نے بروں میں سب سے بری طرح منہ بنا کر کہا۔
“میں۔۔۔ہاں میں ہی تو یہ کہوں گا۔۔۔ لاہور خالی ہو چکا ہے۔۔۔ اس کے پاس سب نہیں ہے۔۔۔ تم تو یہاں بیٹھی ہو۔۔۔ اس کے پاس سب کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ اس کا سب تو مانچسٹر میں آ چکا ہے”۔
کھڑکی کے باہر گرتے برف کے گالوں نے اتنی پیاری بات پر تالیاں بجائیں۔۔۔ وہ سفید سے نیلے، پیلے، ہرے ہو گئے۔۔۔ اور امرحہ خاموش ہو گئی۔

ناول کی تمام کہانی یونیورسٹی لائف کے واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ یونیورسٹی کے پہلے دن اپنی کلاس، ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈنا، سینئرز کے ہاتھوں فول بننا، اسائنمنٹس، امتحانات، لائبریری، گیمز، ہاسٹل لائف اور یونیورسٹی کلاس کے بعد جاب جیسی چیزیں جو بیرون ملک پڑھنے والے کسی بھی طالبعلم کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، سب امرحہ کی زندگی کا حصہ بن گئیں۔ یہ ناول اپنے اندر ایک نوسٹیلجیا رکھتا ہے، یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے والے اور خصوصاً بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے امرحہ کی کہانی پڑھتے ہوئے اپنی یونیورسٹی لائف کو ہی جیسے اپنی آنکھوں کے سامنے گزرتا دیکھتے ہیں اور اپنے تعلیمی دور کو ایک بار پھر سے محسوس کرتے ہیں۔ مصنفہ نے بیرون ملک کی یونیورسٹی لائف کی بہترین عکاسی کی ہے۔ ناول کی تفصیلات، کردار نگاری، منظر کشی متاثر کن اور بھر پور ہیں۔ مصنفہ کے لکھنے کا انداز شاہانہ ہے ایسے جیسے وہ ایک قدیم داستان گو ہیں، جو ساتھ ہی مؤرخ بھی ہے، جسے زمینی اور افلاکی رازوں تک رسائی حاصل ہے اور جس کا انداز شاعرانہ ہے۔ ناول کا ایک جملہ موجودہ دور کی کہانی کا ہے تو ساتھ ہی اگلا جملہ کسی پرانی داستان کا حوالہ لئے ہوئے ہوتا ہے اور تیسرا جملہ افلاکی اور الہامی افعال کا احوال ہے۔
عالیان اٹھا اور چل کر اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
“مذاق کچھ زیادہ ہی ہو گیا۔۔۔ ان کی غلطی ہے۔ انہیں معاف کر دو”۔ اس نے بہت دوستانہ انداز میں کہا۔
وہ بدستور ہچکیاں لیتی رہی۔
“پلیز۔۔۔ انہیں معاف کردو۔۔۔ پلیز۔۔۔” عالیان ڈر تو رہا تھا اندر ہی اندر کہ وہ اس کی گردن ہی نہ دبوچ لے پھر بھی وہ کہے بنا رہ نہیں سکا۔ اس کا رونا ایسا تھا کہ اسے اپنے ایک پیارے کی سسکیاں یاد آنے لگیں تھیں۔
“ایسے نہ رو پلیز۔۔۔ ہم سب کو تکلیف ہو رہی ہے”۔ اس نے ہم کہا “مجھے” نہیں۔ کیونکہ وہ نہیں کہہ سکا۔
اور امرحہ نے سالوں تڑپ تڑپ کر، چھپ چھپ کر روتی رہی آنکھوں کو اٹھا کر عالیان کو دیکھا۔۔۔ اور عالیان وہیں کا وہیں رہ گیا۔۔۔
اگلے جملوں میں ایک دم کہانی ایک دوسرے لیول پہ چلی جاتی ہے کسی الہامی قصہ خواں کے پاس ۔ مصنفہ الہامی قصہ گو کے طور پہ خود کا ذکر کرتی ہیں۔
یہ کیا ہوا؟ ششدر وقت نے خاموشی چاک کی اور سنہری قلم نے بلوریں دوات میں ڈوب کر حرف اول “محبت” کی “م” پر نوک رکھ دی۔
ہاں یہیں سے داستان یارم لکھنے کی ابتدأ میں نے کر دی۔۔۔

پورے ناول میں جا بجا ایسے جملے ہیں اور اور مصنفہ زمینی کہانی بیان کرتے کرتے قدیم الہامی قصہ گو کا انداز اپنا لیتی ہیں۔ ان کا انداز شاعرانہ ہے نیز الفاظ خوبصورتی اور دلکشی کا مجسمہ ہیں۔ کہانی کئی لیولز پہ بیان کی گئی ہے۔ایک جملہ اگر امرحہ اور عالیان کی کہانی کا ہے تو اگلا ہی جملہ دنیا کے کسی بھی علاقے کی کسی متعلقہ روایت کا بیان ہے جس سے اگر آپ واقف ہیں تو ناول کا لطف دو آتشہ ہو جائے گا، لیکن اگر آپ کی واقفیت نہیں ہے تب بھی یہ بیان کی خوبصورتی کو بڑھانے میں مددگار ہے۔ آسمانی مظاہر کی نظر سے قاری اس کہانی کے برڈ آئی ویو سے محظوظ ہوتے ہیں اور اس ناول کی خوبصورتی کو بھر پور انداز سے محسوس کرتے ہیں۔ ناول کا شاہانہ پن قاری کے احساسات پہ چھا جاتا ہے، وہ بلندی اور گہرائی کے ان مقامات تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ اسی احساس کو مصنفہ نے لوحِ کلام میں جہانِ الہام سے تشبیہہ دی ہے جہاں سے انہوں نے محسوسات، خیالات اور الفاظ کی مدد سے یہ کہانی اکھٹی کی ہے۔ یہ کہانی مقدس ہے، اس کا احترام واجب ہے کیونکہ یہ مصنفہ پہ نازل ہوئی ہے۔ مصنفہ کی ایک دو اور کتابوں کے مطالعے کا بھی ہمیں موقع ملا ہے لیکن جو الہامی احساس یارم میں ہے وہ ہمیں کسی اور کہانی میں نہیں ملا۔ یہ اپنی نوعیت کی بالکل منفرد تخلیق ہے جو کئی لیولز پہ قاری کی تسکین کرتی ہے۔ یارم کے احساس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔لوحِ کلام کے تحت مصنفہ اپنے اس ناول کے بارے میں کہتی ہیں؛
“الہام سوچ کے آغاز کا دروازہ ہے اور داستان اس دروازے کے پار کا جہاں”
میں نے الہام کی ترتیب اور کرداروں کی بنت کی محرابوں کو اٹھاتے کسی خطاط کی طرح تصورات کو ان پر نقشین کرتے “جہانِ الہام” کی وسعت کے درمیان خود کو کھڑے پایا، جس کے اطراف کو مجھے داستانِ یارم میں سمونا تھا۔
اور بحکم خدا، میں نے خوش رنگ، ہر رنگ کے پرندوں کو اڑایا اور ان کی پروازوں کے سنگ خود کو پایا۔ محسوسات کی پرتوں کو پوروں سے چھوا، خیالات کی خوشبوؤں کو ان کے مسکن سے نکالا، وقت کے تھال پر قسمت کے سکوں کی کھنک سنی اور زندگی کے آب نیل کی گہرائیوں سے کلام سمیٹا اور لفظوں کو بصورت “یارم” مجسم کرتے احترام سے قلم بند کیا”۔

یارم کی کہانی مجسم محبت اورمجسم دوستی ہے۔ دوستی اور محبت کا تھیم پورے ناول پہ حاوی ہے۔ تمام کردار اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور مثبتیت ہر کردار کا خاصہ ہے۔ ۔ ناول کی کہانی مانچسٹر یونیورسٹی کے تناظر میں لکھی گئی ہے جہاں دنیا بھر کے ممالک طلبا حصولِ علم کے لئے آئے ہیں۔ جن کی رنگ، نسل، مذہب، زبان، رہن سہن سب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ اس کے باوجود ان کے درمیان کڑواہٹ نہیں ہے، رشتوں میں تلخی اور تعلقات میں دشمنی نہیں ہے۔ پورے ماحول پہ ہی دوستی اور محبت کا رنگ ہے۔ مقابلہ اور مسابقت بھی دوستی کی چھتری تلے ہے ۔ مرکزی کرداروں کی اپنی اہمیت مسلم، لیکن ویرا اور کارل جیسے دوست بھی خاص ہیں۔ ویرا روس جیسے ٹھنڈے ملک سے تعلق رکھتی تھی لیکن دوستی میں گرم جوش تھی، دوستی نبھانے کے آداب سے واقف تھی، زندگی خوشیوں سے جینے کی قائل تھی، یہاں تک کہ محبت میں ناکامی بھی اس کے اندر کی اچھائی کو ختم نہیں کر سکی۔ اسے دل صاف رکھنا آتا تھا۔ کارل گرچہ یونیورسٹی میں شیطان کے متبادل کے طور پہ جانا جاتا تھا لیکن اپنے دوست کے وہ ہمیشہ ساتھ تھا۔ کارل اور ویرا ایسے دوست تھے کہ ہر انسان یہ خواہش کرے کہ کاش اس کے بھی ایسے ہی دوست ہوں۔ یہ مصنفہ کی ذہنی صلاحیت اور کامیابی ہے کہ انہوں نے “یارم” کو اپنا موضوع بنایا تو پوری تخلیق میں محبت اور دوستی کے علاوہ کسی اور جذبے کا عکس موجود نہیں۔ یہ بلاشبہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی کامیابی اور مکمل موضوع فہمی کی نشاندہی ہے۔

سمیرا حمید کے لکھنے کا انداز ان کی ہم عصر ناول نگاروں سے مختلف ہے۔ ان کے ہاں نمرا احمد کی طرح نہ کرداروں کی بہتات ہےاور نہ ہی ڈرامائی انداز بلکہ ٹھہراؤ کی سی کیفیت ہے ۔ ان کے کردارعمیرا احمد کے کرداروں کی طرح اچھائی اور برائی کی انتہاؤں پہ نہیں بلکہ عام سے انسان ہیں جو قاری کے ساتھ خود ہی تعلق بنا لیتے ہیں۔ ناول کی کہانی میں بڑے بڑے پیچ و خم نہیں ہیں۔ یہ واقعات در واقعات نہیں بلکہ کرداروں کے تعارف کی صورت میں آگے بڑھتی ہے۔ ناول کے ہر واقعے کا احساس مصنفہ نے گہرائی میں اتر کے تفصیلی بیان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کہانی گرچہ سست رفتار ہو جاتی ہے لیکن قاری خود کو کرداروں کی روح میں اترا ہوا پاتا ہے۔ ناول کے مطالعے کے دوران ہمیں فیودور دوستوفسکی کا ناول ذلتوں کے مارے لوگ یاد آنے لگاجس کی خاص بات اس کی سادگی ہے جو قاری کے دل پہ گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہی سادگی اور گہرے اثر والی خاصیت ہمیں یارم میں بھی ملی جس کی بظاہر ایک سادہ سی کہانی میں احساسات کا اتنا موثر بیان ہے جو دل پہ گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ فیودور دوستوفسکی کے ناول سے ایک اقتباس یہاں پیش ہے؛
میں نے ایک ہی نشست میں سارا ناول پڑھ کر سنا دیا۔ چائے پینے کے فوراً بعد شروع کیا تھا، رات کے دو بجے تک جاری رہا۔ بڑے میاں نے اول تو ناک بھوں چڑھائی۔ انہیں گمان تھا کہ کوئی بڑی شاندار چیز ہوگی، کوئی ایسی بات جسے وہ خود بھی سمجھ نہ پائیں، لیکن ہو بہت اعلیٰ ارفع۔ اور اس کے بجائے سننے کو کیا ملا۔۔۔ نہایت روزمرہ قدم کی سادہ چیزیں، یعنی ایسی جو خود انہی کو زندگی میں پیش آتی تھیں۔ یہ بھی نہ ہوتا، کم از کم اتنا تو ہوتا کہ ناول کا ہیرو ہی کوئی بڑا آدمی یا دلچسپ شخصیت کا مالک ہوتا یا تاریخی شخصیت کا آدمی، جیسے روسلا ولیف یا یوری میلو سلافسکی۔ مگر وہ بھی نہیں۔ اس کے بجائے جس ہیرو کا ذکر تھا اسے ایک معمولی دبا کچلا بلکہ سادہ لوح کلرک بتایا گیا جس کی وردی کے بٹن تک غائب تھے۔ اور پھر یہ ساری باتیں اس قدر معمولی، روزمرہ کی زبان میں لکھی ہوئی تھیں جیسی ہم خود بولتے رہتے ہیں۔ عجیب بات! بڑی بی نے نکولائی سرگیئچ کے چہرے کو حیران حیران نظروں سے دیکھا اور ایسے منہ بنایا جیسے روٹھ گئی ہوں۔۔۔ “کیا واقعی یہ خرافات اس قابل تھی کہ اسے چھاپا جاتا اور سنا جاتا، اور اوپر سے اس کام کا روپیہ بھی ملتا ہے۔” یہ جملہ گویا ان کے چہرے پہ لکھا ہوا تھا۔ نتاشا پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ وہ ایسی منہمک تھی سننے میں کہ میرے چہرے سے اس کی نظر نہ ہٹتی تھی اور میرے ہونٹوں کی حرکت دیکھ رہی تھی کہ کیسے میں لفظوں کو ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ خود بھی اپنے نازک لبوں کو حرکت دیتی جاتی تھی۔ کیا سمجھتے ہیں آپ، کیا ہوا؟ ابھی میں ناول کا آدھا حصہ بھی ختم نہ کر پایا تھا کہ ان تینوں کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔ آننا اندریئو سچ مچ رو رہی تھیں اور انہیں میرے ہیرو پہ رہ رہ کر ترس آ رہا تھااور ان کے بار بار کے ہائے وائے کرکے چونکنے سے میں نے یہ اندازہ کیا کہ وہ حد درجہ سادگی سے بےقرار ہیں کہ میرے ہیرو کی مصیبت میں کسی طرح کام آئیں۔
یعنی جس طرح دوستوفیسکی کی کہانی نے اس کے قارئین کو اتنا متاثر کیا کہ وہ آدھی کتاب کے بعد ہی آبدیدہ ہو گئے اور کرداروں کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے لگے ویسے ہی یارم کے کرداروں نے اپنا تعلق پڑھنے والوں کے ایسا بنایا کہ ان کے احساسات قاری کی آنکھوں کو اشک بار کر گئے ۔ یہ کردار بتاتے ہیں کہ محبت کی کہانیاں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ کرداروں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کہانیاں ایک سی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے ایک سے احساسات ہوتے ہیں، ایک سے خوف ہوتے ہیں اور ایک سی امیدیں ہوتی ہیں۔ناول کے مطالعے کے دوران قاری محبت کی گرمی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے اور محبت جیسے جذبے کی سچائی پہ اس کا یقین پختہ ہو جاتا ہے۔
“اگر میں برف ہوتی تو تمہارے قدموں پر گرتی”۔
“تم برف ہوتیں تو میں بھی برف ہوتا۔۔۔ مجھے وہی ہونا ہے جو تمہیں ہونا ہے امرحہ”۔

Yaram

Sumaira Hameed

    Recently Viewed Products

    یارم | سمیرا احمد

    Returns

    There are a few important things to keep in mind when returning a product you have purchased from Dervish Online Store:

    Please ensure that the item you are returning is repacked with the original invoice/receipt.

    We will only exchange any product(s), if the product(s) received has any kind of defect or if the wrong product has been delivered to you. Contact us by emailing us images of the defective product at help@dervishonline.com or calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm) within 24 hours from the date you received your order.

    Please note that the product must be unused with the price tag attached. Once our team has reviewed the defective product, an exchange will be offered for the same amount.


    Order Cancellation
    You may cancel your order any time before the order is processed by calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm).

    Please note that the order can not be canceled once the order is dispatched, which is usually within a few hours of you placing the order. The Return and Exchange Policy will apply once the product is shipped.

    Dervish Online Store may cancel orders for any reason. Common reasons may include: The item is out of stock, pricing errors, previous undelivered orders to the customer or if we are not able to get in touch with the customer using the information given which placing the order.


    Refund Policy
    You reserve the right to demand replacement/refund for incorrect or damaged item(s). If you choose a replacement, we will deliver such item(s) free of charge. However, if you choose to claim a refund, we will offer you a refund method and will refund the amount in question within 3-5 days of receiving the damaged/ incorrect order back.

    What are you looking for?

    Your cart