FREE SHIPPING | On order over Rs. 1500 within Pakistan

Best of Sibt e Hassan | سبط حسن کی 3 روشن کتابیں

In Stock Unavailable

sold in last hours

Regular price Rs.2,375.00 |  Save Rs.-2,375.00 (Liquid error (sections/product-template line 159): divided by 0% off)

Hurry, Only -6 left!
-6

Spent Rs. more for free shipping

You have got FREE SHIPPING

ESTIMATED DELIVERY BETWEEN and .

PEOPLE LOOKING FOR THIS PRODUCT

PRODUCT DETAILS

انتظار حسین نے سبط حسن کو پہلی دفعہ اس وقت دیکھا ، جب وہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ’’امروز‘‘ میں سب ایڈیٹر تھے۔ چراغ حسن حسرت ایڈیٹراورحمید ہاشمی نیوزایڈیٹر۔ انتظارحسین نے انٹرویو میں بتایا:
’’امروزمیں لیٹ نائٹ ایک ڈیڑھ بجے کاپی جاتی تھی۔ ایک روز یہ ہوا کہ ساڑھے بارہ کے قریب ایک صاحب ہیٹ لگائے نمودار ہوئے ، عینک لگی ہے ، جاڑوں کا موسم ۔ میرے بالکل برابر بیٹھ گئے ۔ نیوزایڈیٹر اور ان کے سامنے مجھ سمیت تین سب ایڈیٹر بیٹھے تھے ۔ مہمان کے لیے چائے آئی۔ کوئی بات نہیں ہوئی۔ تھوڑی دیر بعدوہ حمید ہاشمی کے ساتھ چلے گئے۔ کاپی جڑنے کے وقت حمید ہاشمی واپس آگئے ۔ جب باقی لوگ ادھر ادھر ہوگئے تو مجھ سے حمید ہاشمی نے پوچھا کہ پہچانا وہ کون صاحب تھے ؟میں نے کہا ، مجھے کیا پتا۔ کہنے لگے، سبطے بھائی ۔ میں نے کہا آپ تعارف ہی کرا دیتے ۔ کہنے لگے ، باؤلے ہوئے ہو، وہ انڈر گراؤنڈ ہیں۔ ‘‘

____________

سبط حسن کی 3 روشن کتابیں
1- موسی سے مارکس تک = 850 روپے
2- ماضی کے مزار = 850 روپے
3- انقلابِ ایران 750 روپے
قیمت ٹوٹل 2475 روپے
--------------------

نام کتاب: موسیٰ سے مارکس تک
مصنف: سبطِ حسن
صفحات: 444

اشتراکیت کے بارے میں ہمارے ملک کے ایک بڑے حلقے کی معلومات یا تو بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں یا پھر بہت ناقص ہیں۔ اس پر مستزاد اشتراکیت کے مخالفین کا مخالفانہ پروپیگنڈہ ہے جو بہت سی غلط فہمیوں کا موجب بنا ہے۔ البتہ وہ لوگ جن کی اشتراکی ادب تک دسترس ہے اور جنہوں نے کھلے ذہنوں کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا ہے وہ اس کے بارے میں آزادانہ طور پر اپنی حقیقت پسندانہ رائے قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ مگر کیونکہ یہ ادب بیشتر انگریزی یا دوسری غیر ملکی زبانوں میں ہے لہٰذا وہ افراد جو ان زبانوں سے واقف نہیں ہیں یا اُن میں اُن کی اہلیت واجبی سی ہے، وہ خواہش کے باوجود اس کے بالاستیعاب استفادے سے محروم ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر سبطِ حسن صاحب نے یہ کتاب تصنیف کی ہے۔
یہ سوشلزم کی تاریخ کے موضوع پر پاکستان میں چھپنے والی پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب میں سوشلزم کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے خیالی اور تصوراتی دور سے آغاز کیا گیا ہے اور مارکس تک اس کا احاطہ کیا گیا ہے جس نے سوشلزم کو ایک سائنسی نظریے کی شکل میں ڈھالنے کا کام کیا۔
اس کتاب نے زبردست شہرت حاصل کی۔ یہ خالص نظریاتی کتاب ہے جس میں انہوں نے سائنٹیفک سوشلزم کی تشریح اور توضیح کی۔ نوجوانوں پر اس کتاب نے طہرے اثرات مرتب کیے۔
'موسیٰ سے مارکس تک' برصغیر میں بائیں بازو کے لٹریچر میں بہت اہم اضافہ ہے۔ سید سبطِ حسن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخ نگاری میں روایتی عہد بندی (periodization) کے قائل نہیں ہیں۔ وہ انسانی سماج کے ارتقا کو سائنسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا طرزِ فکر جدلیاتی ہے اور اسی اصول کوانہوں نے تاریخ نویسی کے دوران بھی برتا ہے۔ یہ کتاب بلا مبالغہ برصغیر میں لکھی جانے والی بائیں بازو کے اکابر کی کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ سید سبطِ حسن کا اسلوب انتہائی سادہ اور تجزیاتی ہے اور یہ بھی اس کتاب کی پذیرائی کا ایک اہم سبب ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی قابلِ قدر تدوین نے اس کتاب کو قارئین کے لیے مزید مفید بنا دیا ہے۔

----------------------------------------

ماضی کے مزار
مصنف: سبط حسن
صفحات:442

تہذیب ایک جداگانہ وقوعہ نہیں، نہ ہی تہذیبی اداروں اور ثقافتی اقدار کی تشکیل ازخود ہو جاتی ہے بلکہ ژرف نگاہی سے جائزہ لینے پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تہذیب ایک ایسے سلسلہ در سلسلہ کا نام ہے جس کی پہلی کڑی ماضی بعید کے دھندلکوں میں پوشیدہ ہے تو آخری کڑی مستقبل بعید کی تاریکی میں، یوں تہذیبی ادارے اور تمدنی اقدار ان لہروں سے ایسی صورت اختیار کر لیتے ہیں جو محض سطح کے تموج کو ظاہر کرتی ہیں لیکن سمندر صرف لہروں کا نام نہیں بلکہ اس کی تہہ تک پانی ہی پانی ہوتا ہے لیکن سطح پر مچلتی موجیں اور تہہ کا پانی ایک ہی ہیں۔ پس یہی حال قدیم تاریخ کا ہے۔ وہ تاریخ جو کم علمی کی بنا پر نگاہوں سے پوشیدہ دھندلکوں میں ملفوف عجیب و غریب وقوعات کا مجموعہ نظر آتی ہے لیکن درحقیقت ہمارا اس قدیم تاریخ سے وہی تعلق ہے جو سمندر کی تہہ کے پانی اور سطح پر کھیلتی لہروں کا۔
ماضی کے مزار اس موضوع پر بلاشبہ ایک مبسوط اور جامع کتاب ہے۔ اس میں وادیِ دجلہ و فرات کے اس مرحوم تہذیب و تمدن کی داستان بیان کی گئی ہےجو صفحہِ ہستی سے تو مٹ گئی ہے لیک اس کے اثرات اب بھی ہمارے بعض عقائد اور توہمات کی صورت میں نظر آ سکتے ہیں۔۔۔
یہ کتاب صرف اس شخص کے لیے ہے جو علم کی روشنی کو تعصبات کے اندھیرے سے نہیں روکنا چاہتا کیونکہ کئی مذہبی عقائد قدیم ادبیات کا سرمایہ نظر آتے ہیں۔ یہ تاریخ کے اس عہد کے بارے میں ہے جسے ہم مسلمان کفار کا زمانہ قرار دیتے ہیں اس لیے اس سے استفادہ یا کم از کم لطفاندوزی کے لیے ایسے قاری کی ضرورت ہے کہ
قلب اُو مومن و دماغش کافر است
(پروفیسر سلیم اختر)

 ----------------------------------------

سبط حسن کی کتاب”انقلاب ایران“ پر ایک نظر

اس کتاب میں پہلوی دور سے قبل قاچاری دور حکومت کے ایرانی عوام پر ڈھائے گئے مظالم کی قریب دو صدیوں کی تاریخ کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد کتاب کے مصنف سید سبط حسن نے رضا شاہ پہلوی کی آمریکہ اور اس کے ہمسائیوں کے بل پر کھڑی بظاہر مضبوط اور فولادی حکومت کے 53 سالہ دور کا جائزہ انتہائی باریک بینی سے لیا ہے۔ ایرانی عوام پر کیے جانے والے ظلم وجبر اور ان خلاف اٹھنے والی ہر آواز کی نشاندہی کرتے ہوئے مصنف نے عوامی شعور کے ابھار کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایرانی عوام کے اندر بیداری کا پہلا دور انقلاب فرانس کے ایران کی سیاسی و سماجی فضاء پر اثرات کا دور تھا جو سلطان ناصرالدین شاہ کے دور پر ختم ہوا۔ اسی دور میں بیرونی قوتوں کی مداخلتوں کا آغاز ہوا۔

ناصرالدین شاہ نے ایران کی زبوں حالی کا تذکرہ کرنے پر ایران میں 1837ء میں شائع ہونے والے پہلے اخبار کو اقتدار ملتے وقت ہی بند کردیا تاکہ اس کے دور حکومت میں ہونے والی ناانصافیوں کی خبر کسی تک نہ پہنچ سکے لیکن ”خیالات تو روح عصر کے تقاضوں کا اظہار ہوتے ہیں ان کو دیوار چین بھی نہیں روک سکتی“ پھر ایران کے نامور اہل قلم نے دوسرے ممالک میں بیٹھ کر اخبارات اور رسالوں کی اشاعت کی اور اپنے ملک تک پہنچاتے رہے اور اسی طرح سے ایرانی عوام کی ذہنی آبیاری کا سلسلہ نہ چلتا رہا۔

دوسرا دور 1903ء میں شروع ہوا اور پہلی جنگ عظیم پر ختم ہوا اور اس دور کو مشروطہ کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ تیسرا دور ترقی پسندی اور روشن خیالی کا دور تھا جو انقلاب روس کے اثرات کا دور تھا اور چوتھا پہلوی دور۔

قاچاری دور کے بعد ایران پر آدھی صدی سے زائد عرصہ حکومت کرنے والے رضا شاہ پہلوی نے شاید یہ سمجھ لیا تھا کہ اس کی بادشاہت کا زوال کبھی نہیں آئے گا بالکل اسی طرح جس طرح برطانوی سلطنت کے حکمرانوں کو غرور تھا کہ ان کی شہنشاہت کے سر سے سورج کبھی نہیں ڈوبنے والا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ظلم و جبر کے تنوروں میں پک کر فولاد بننے والی عوامی تحریکوں کے سامنے بڑی بڑی شہنشاہتیں ٹک نہ سکیں اور زمین دوز ہوگئیں۔ پہلوی کے ساتھ بھی بالآخر وہی ہو اور فروری 1979ء میں ایرانی عوام تہران یونیوسٹی کے طلبہ و طالبات، مذہبی و ترقی پسند سیاسی تنظیموں نے مل کر ظلم و ستم کو شکست دی اور پہلوی کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ آیت اللہ خمینی اس انقلاب کے بانی کی منصب پر فائز ہوئے۔

ایرانی شاعرہ پروین اعتصامی نے جیسا کہ اس انقلاب سے کئی سال پہلے لکھا تھا کہ

زقید بندگی ایں بستگان شوند آزاد

اگر بہ شوق رہائی زنند ہال و پری

(اطاعت و غلامی کی قید میں پھنسے ہوئے لوگ اگر رہائی کی خاطر اپنے بازو اور پر ہلائیں تو آزاد ہوسکے ہیں)

اور ایرانی عوام نے بالکل انہی اشعار کو عملی جامہ پہنایا۔

اس انقلاب کیلئے ایران میں بسنے والی تمام نسلی اقلیتوں، ترقی پسند تنظیموں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے قربانیاں اسی خلوص نیت سے دیں تھیں کہ آئندہ ادوار میں، ان کے ساتھ صدیوں سے ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہوگا اور نئی صبح ان کیلئے انصاف کی نويد لے کر آئے گی لیکن انقلاب کے چند ہی ماہ بعد اپنے حقوق کی صدا بلند کرنے والے کردوں، عربوں اور جامعہ تہران کے طلبہ کو خون سے نہلایا گیا۔ ایرانی آئین کی تشکیل اس طرح سے کی گئی کہ جس سے فقط آیت اللہ خمینی کی ایران پر گرفت مضبوط ہو۔ ایرانی انقلاب جو درحقیقت پہلوی دور کے جبر، بھوک و افلاس سے تنگ آئے عوام کے رد عمل میں آنے والا انقلاب تھا اس کو مذہبی غلاف پہنا دیا گیا اور پہلوی دور میں موجود سکیورٹی کی خوفیہ تنظیم ساواک کی طر ز پر پاسدارانِ انقلاب بنائی گئی جس نے بلکل ساواک کی طرح ہی اپنے جائز حقوق مانگنے والوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک برتا اور ظلم کی نئی مثالیں قائم کر دیں۔

ایرانی انقلاب اپنی رو سے کچھ ہی عرصے کے بعد مذہبی انقلاب بھی نہ رہا جس کی دلیل انقلاب کیلئے قربانیاں دینے والی نسلی اقلیتوں کرد اور عربوں اور جامعہ تہران کے طلبہ کا قتل عام ہیں۔ کردوں اور عربوں میں ایرانی افواج اور پاسداران انقلاب کے مظالم کی وجہ سے حکومت کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی تھی اور عراق نے اسی موقعہ کا فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی اور امریکہ کے اشارے پر ایران پر حملہ کردیا۔ عراقی حکومت کا خیال تھا کہ ایرانی کرد اور عرب اس جنگ میں عراق کا ساتھ دیں گے لیکن اس کی امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں اور کردوں اور ایرانی عربوں نے بھی ایرانی افواج و دیگر عوام کی طرح عراقیوں کو ناکوں چنے چبوانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ایرانی انقلاب کے بنیادی اسباب تنگ دستی، ملک کی زبوں حالی، پہلوی دور کے ظلم اور امریکی و دیگر سامراجی قوتوں کے خلاف نفرت تھی اور سامراج سے نفرت ہی اس انقلاب کی سب سے اہم و مثبت بات ہے۔ ایرانی انقلاب کی وجہ سے دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست کا اضافہ ہوا جو چند اور ریاستوں کی طرح عالمی سامراجی قوتوں کے تسلط کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔

تاریخ کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو سبط حسن کی اس ایران کی تین صدیوں کی تاریخ پر لکھے گئے انتہائی اہم دستاویز کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

 

 

Mazi ke Mazar
Inqalab e Iran
Moosa se Marx Tak

 

Recently Viewed Products

Best of Sibt e Hassan | سبط حسن کی 3 روشن کتابیں

Returns

There are a few important things to keep in mind when returning a product you have purchased from Dervish Online Store:

Please ensure that the item you are returning is repacked with the original invoice/receipt.

We will only exchange any product(s), if the product(s) received has any kind of defect or if the wrong product has been delivered to you. Contact us by emailing us images of the defective product at help@dervishonline.com or calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm) within 24 hours from the date you received your order.

Please note that the product must be unused with the price tag attached. Once our team has reviewed the defective product, an exchange will be offered for the same amount.


Order Cancellation
You may cancel your order any time before the order is processed by calling us at 0321-8925965 (Mon to Fri 11 am-4 pm and Sat 12 pm-3 pm).

Please note that the order can not be canceled once the order is dispatched, which is usually within a few hours of you placing the order. The Return and Exchange Policy will apply once the product is shipped.

Dervish Online Store may cancel orders for any reason. Common reasons may include: The item is out of stock, pricing errors, previous undelivered orders to the customer or if we are not able to get in touch with the customer using the information given which placing the order.


Refund Policy
You reserve the right to demand replacement/refund for incorrect or damaged item(s). If you choose a replacement, we will deliver such item(s) free of charge. However, if you choose to claim a refund, we will offer you a refund method and will refund the amount in question within 3-5 days of receiving the damaged/ incorrect order back.

What are you looking for?

Your cart