علی پور کا ایلی
”اللہ تعالٰی سے دوستی ہے کیا“
”نہیں“ وہ مسکرائے. ”ابھی تو معمولی جان پہچان ہوئی ہے“
”ایک بات پوچھوں“ ایلی نے کہا.
”ضرور پوچھئے. جو جی چاہے پوچھئے“
”اللہ پاک کیسے ہیں؟“
”بہت پیارے ہیں“ انہوں نے جواب دیا. ”بہت ہی پیارے“
”وہ تو بہت سخت ہیں“ ایلی نے کہا.
حاجی صاحب مسکرائے ”سخت ہوتے تو کیا ہم اس قدر بگڑے ہوئے ہوتے“
ایلی کو یہ خیال کبهی نہ آیا تها. اس نے اس زاویے سے اللہ تعالٰی کو کبهی نہ دیکھا تها. اس کے نزدیک اللہ تعالٰی ایک عظیم ہستی تهی. بے نیاز بے پروا !!
”ایلی صاحب“ وہ بولے. ”اللہ تعالٰی سے دوستی کر کے دیکھو، اس قدر مخلص دوست نہیں مل سکتا“
”میں اس قابل نہیں“ ایلی نے جواب دیا.
”قابلیت اور اہلیت وہ خود عطا کرتے ہیں“ حاجی صاحب نے کہا. ”صرف ان کی دوستی کی خواہش پیدا کرو. صرف خواہش“
”خواہش تو خود پیدا ہوتی ہے زبردستی پیدا نہیں کی جا سکتی“ ایلی نے کہا.
”تو یہ خواہش ان سے مانگو. اللہ سبحان تعالٰی سے یارانہ خوبصورت سے خوبصورت عورت کے یارانے سے کہیں زیادہ رنگین ہے“
حاجی صاحب کی باتیں عجیب تھیں. ایلی سوچ میں پڑ گیا. اس شخص کا تخیل کس قدر رنگین ہے. اس کی غمناک نگاہ میں کتنی وسعت ہے“
(ممتاز مفتی، علی پور کا ایلی)